تحریر : زاہد محمود پارلیمانی نظام کا متبادل صدارتی نظام بھی جمہوریت کا بہترین نظام ہے، ایک بہترین شخص پورے ملک میں سے منتخب ہو اور وہ اپنے ساتھ ایک بہترین ٹیم لے کر آئے اپنی پالیسی کے ذریعے عوام کی قسمت کے فیصلے کرے وہ با اختیار بھی ہوتا ہے اور فیصلے بھی مضبوط کر سکتا ہے اسکے بعد وہ ایک بہترین بلدیاتی نظام کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اقتدار میں شریک کرے ایسا کرنے سے عوام کے حقیقی نمائندے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ ایک بہترین نظام اور طرز حکومت معرض وجود میں آتا ہے اگر وہ پارٹی یا شخص عوام کے مسائل حل کر سکے تو عوام اسکو دوبارہ منتخب کر لیں نہیں تو اسکا متبادل کوئی اور شخص یا پارٹی اقتدار میں آجائے گی لیکن یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں چونکہ عوام کی اکثریت صوبہ پنچاب میں ہے اور باقی صوبوں میں چونکہ احساس محرومی بھی موجود ہے تو ہو سکتا ہے کہ ہمیشہ پنجاب سے ہی ایک پارٹی یا شخص صدر بن جائے اور قوم پرست جماعتیں اسکی مخالفت میں اس حد تک چلی جائیں جس سے ریاست کو وجود کو ہی خطرہ لاحق ہو جائے۔
اس نظام پر جو دوسرا اعتراض کیا جاتا ہے وہ بھی بجا ہے کہ اس سے قائدانہ صلاحیتوں کے حامل افراد بہت کم ملتے ہیں۔ ایک گھنے پیڑ کے نیچے جو پودے ہو تے ہیں وہ کبھی بھی پھل پھول نہیں سکتے کیونکہ موسم کی سختیا ں وہ برداشت نہیں کرسکتے اسی طرح ایک بہت اچھا حکمران زیادہ سے زیادہ 10 سال تک عوام میں اپنی مقبولیت کو برقرار رکھ سکتا ہے اسکے بعد اسکی غلطیاں جرم بننا شروع ہو جاتی ہیں کیونکہ ایک فطرتی عمل ہے ایک ہی چہرے سے لوگ بہت جلد بے زار ہونا شروع ہو جاتے ہیں اسکے بعد وہ تبدیلی کی طرف دیکھتے ہیں اگر تو کوئی اس حکمران کا متبادل موجود ہو تو ٹھیک ورنہ قیادت کے فقدان کی وجہ سے عوام اور ملک کا بہت نقصان ہوتا ہے۔ اس بات کا بھی امکان رہتا ہے کہ ایسا شخص مختار کل بن بیٹھتا ہے اور اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو ریاستی طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ تو ایسے حالات میں صدارتی نظام کا نفاذ ارض پاک کے لئے قابل عمل نہیں۔
جمہوریت میں ایک اور نظام جسے متناسب نمائندگی کا نظام کہا جاتا ہے بھی بہت اچھا نظام ہے قارئین کی سہولت کے لیئے متناسب نمائندگی کے نظام کی تعریف بیان کرتا چلوں، انتخابات سے قبل تمام کی تمام جماعتیں اپنی اپنی پالیسیاں اور ٹیم عوام کے سامنے رکھتی ہیں عوام انکا بغور مطالعہ کرنے کے بعد ان جماعتوں کے حق میں فیصلہ کرتے ہیں ۔جس جماعت کو جتنے ووٹ پڑتے ہیں اسی تناسب سے اس جماعت کو اسمبلی میں نشستیں ملتی ہیں۔ چاہیں تو چھوٹی جماعتیں ملکر اکثریت حاصل کر لیں چاہیں تو زیادہ نشستیں لینے والی جماعت مطلوبہ اکثریت حاصل کرے اور حکومت بنائے اس سے ایک تو نئی جماعتیں بھی معرض وجود میں آتی ہیں اور بہت ساری نئی قیادت بھی عوام کو دیکھنے کو ملتی ہے جس سے ایک تو حلقہ بندیوں کے باعث سیاسی جماعتیں اپنی ذاتی ووٹ بنک رکھنے والوں کی محتاجگی سے بھی کافی حد تک محفوظ رہتی ہیں اور بہترین لوگ اسمبلیوں کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں۔
National Assembly
لیکن اس نظام میں مجھے جو مسئلہ نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ اچھی شہرت رھنے والے وہ امیدواران جو کہ آزاد حیثیت میں انتخابات لڑتے ہیں وہ اچھی خاصی تعداد میں ووٹ لینے کے باوجود بھی اسمبلی میں نہیں پہنچ پائیں گے تو اسکا سدباب بھی کیا جانا ضروری ہے کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ اچھے لوگ صرف سیاسی جماعتوں کے اندر ہی موجود ہوں کوئی نہ کوئی ایسا نظام ضرور ہونا چاہئے کہ آزاد حیثیت میں لوگ الیکشن لڑ کر اسمبلی میں پہنچ سکیں ، میرے خیال میں اسکا ایک حل موجود ہے کہ اگر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہم اسی نظام کے تحت کروائیں جس کے تحت ہم موجودہ انتخابات کروارہے ہیں تو اس سے آزاد امیدواروں کے لیئے بھی اسمبلی میں پہنچ کر اپنے آپکو منوانا اور اپنی ایک جماعت بنا کر قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینا آسان ہو جائے گا ۔اور پھر اسکے لیئے ملکی سطح کی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے کا میدان بھی کھل جائے گا اور پھر وہ اپنے ساتھ بہترین لوگوں کی ایک ٹیم لا کر اقتدار تک پہنچ سکتا ہے۔
اب بات کرتے ہیں ہمارے نظام میں موجود ووٹ ڈالنے کے طریقہ کار کی جو کہ بہت زیادہ متنازع ہوچکا ہے کچھ جماعتیں الیکٹرونک ووٹنگ کی حامی ہیں جبکہ کچھ بیلٹ پیپر کے ذریعے ووٹنگ کی حامی ہیں۔ ویسے تو الیکٹرونک ووٹنگ کے ذریعے دھاندلی کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں مگر اس میں ایک احتمال ضرور موجود رہتا ہے کہ ملک کی چند مقتدر قوتیں کسی بھی جماعت کو اکثریت دلا سکتی ہیں اور الیکٹرونک ووٹنگ میں ووٹوں کی گنتی چونکہ مشین کرتی ہے اس لیئے اس بات کا احتمال ضرور موجود رہتا ہے کہ اس مشین کے سافٹ وئیر میں کوئی وائرس کے ذریعے اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتا ہے اور دوسری بات یہ کہ بلدیاتی انتخابات میں بھی ہمیں ایک جیسا طریقہ ہی چاہئے جو کہ عام آدمی کے لیئے سمجھنا آسان ہو تو کیوں نہ ہر پولنگ اسٹیشن پر ایک ایسی مشین رکھی جائے جس سے ووٹر کی تصدیق پولنگ اسٹیشن پر ہی ہو جائے اور وہ صرف ایک دفعہ ہی بیلٹ پیپر کے ذریعے ووٹ ڈال سکے پولنگ اسٹیشن پر ہی پولنگ ایجنٹوں کے سامنے پریذائڈنگ افسران کی موجودگی میں ووٹوں کی گنتی ہو اور ہر پریذائڈنگ افسر اپنا دستخط شدہ نتیجہ تمام پولنگ ایجنٹوں کو فراہم کرے۔ اس سے ایک تو پولنگ ایجنٹوں اور سیاسی جماعتوں کی بھی تسلی ہو جائے گی اور دھاندلی کی مناسب روک تھام بھی کی جاسکے گی۔
درج بالا تمام تجاویز اپنے دوستوں اور قارئین کے مطالعے کے لیئے پیش ہیں امید کرتا ہوں کہ ایک سیر حاصل بحث کے بعد ہم کسی نہ کسی بہترین نتیجہ پر ضرو پہنچ سکیں گے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنی رائے ضرور پہنچائیں کیونکہ انسان ہر مرحلے پر کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے تو آپکی رائے میرے لیئے اور اس ملک کے مستقبل کے لیئے نہایت مددگار ثابت ہو گی۔ میرا ای میل ایڈریس آپکی رائے کے لیئے حاضر ہے۔