تحریر: عماد ظفر ہم وہ لوگ ہیں جو نفرتوں کو پال کر خوش ہوتے ہیں اور محبتوں کو اپنے وجود کیلئے خطرہ سمجھتے ہیں.تلخیاں کڑواہٹ اور نفرتوں کا زہر بحیثیت مجموعی ہم لوگوں کی رگوں میں لہو کی مانند گردش کرتا ہے. ایبٹ آباد میں ایک نویں جماعت کی طالبہ کو جس بے رحمانہ انداز میں جلایا گیا اس حیوینیت اور سفاکی کی مذمت کیلیے کسی بھی لغت میں کوئی الفاظ موجود نہیں ہیں. یہ بچی جس کا نام عنبرین تھا اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے اپنی ایک سہیلی کو پسند کی شادی کرنے میں مدد فراہم کی تھی۔
اس جرم کہ سزا ایبٹ آباد کے گاوں ملکوال کے جرگے نے یہ تجویز کی کہ اس بچی کو مار کر جلا دیا جائے تا کہ پورے علاقے میں یہ بچی نشان عبرت بن جائے اور آئیندہ کوئی بھی اور عنبرین محبتوں کی پیامبر بننے کی جرات کر کے “بے غیرتی” سے برادی یا گاوں کی “غیرت” کو ٹھیس نہ پہنچا سکے. یہ غیرت ہے یا بے غیرتی کی انتہائی گری ہو سطح کہ عنبرین کے گھر والے بھی اس کے قتل میں شریک تھے اور چپ چاپ جرگے کے حکم کو مان کر عنبرین کو ان کے حوالے کر دیا گیا.جہاں پہلے اسے نشہ آور ادوایات دینے کے بعد موت کی نیند سلا دیا گیا اور پھر ایک وین میں سیٹ سے باندھ کر اس کی لاش کو جلا دیا گیا۔
غیرت کے نام پر ایک اور بچی کی جان گئی لیکن کم بخت غیرت ہے کہ اس کا دل لہو پی پی کر بھی بھرتا نہیں ہے. ایک ایسی گھٹیا اور فرسودہ سوچ جو محض اپنی انا اپنی برتری اور اپنی مردانگی کو ثابت کرنے کیلئے وطن عزیز کے طول و عرض میں پنپ رہی ہے. اس سوچ کی آبیاری سکول کالج مدارس مساجد حتی کہ گھروں تک میں ہوتی ہے.جہاں عورت کو کمزور ثابت کرتے ہوئے بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ عورت چولہا جلانے بچے پالنے اور مرد کی ہم بستری کے علاوہ زندگی میں کچھ اور ارمان نہیں رکھ سکتی وگرنہ اس سے بے حیائی پھیلتی ہے اور خاندان یا برادری کی غیرت کو ٹھیس پہنچتی ہے. ایبٹ آباد میں پیش آنے والا یہ واقعہ دراصل سماجی رویوں کے حیوانی ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے.ایک ایسا حیوانی رویہ جو کسی بھی بچی یا عورت کو قہقہہ لگاتا دیکھے خوش دیکھے تو فورا اس بچی کو آوارہ بد چلن کہتے ہوئے غیرت کے نام پر ایک خطرہ قرار دے دیتا ہے۔
Extremist behavior
یہ شدت پسندانہ رویہ اور سوچ دراصل “کمزوری” کا شکار معاشرے کی پہچان ہے. ایسا معاشرہ جہاں مرد آج تک اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مردانگی محض عضو تناسل یا شہوانی لذتوں کی تسکین کا نام نہیں ہے اور نہ ہی مردانگی غصہ دکھانے کا نام ہے. مذہن کے نام پر پسند کی شادیوں کو جرم ثابت کرنے والوں کو بھی سمجھنا چائیے کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا قانون اس طرح کے گھناونے واقع کی اجازت دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا. عنبرین کی یہ المناک موت ہمارے جرگہ سسٹم اور پنچایت کے نظام پر اور بحیثیت معاشرہ ہم سب کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ ہے.جرگہ جسے کہ ہمارے ہاں “غیرت بریگیڈ” انصاف فراہم کرنے کا سستا ترین اور تیز ترین ذریعہ تصور کرتی ہے آج تک اس جرگہ کے نظام نے عجیب و غریب فیصلے ہی دیئے ہیں۔
کبھی ان جرگوں میں پانچ پانچ سال کی بچیوں کو 70 سالہ بابوں کے عقد میں دے دیا جاتا ہے تو کبھی خواتین کو برہنہ کر کے گاوں یا دیہاتوں میں پھروایا جاتا ہے تو کبھی مختاراں مائی جیسے واقعات جہاں خود جرگے کے ممبران ہی مختاراں مائی کے ساتھ بلاتکار کے مجرم ٹھہرے تھے.کاروکاری ونی سواران جیسی رسمیں بھی جرگوں اور پنچایتوں کے فیصلوں کی بدولت ہی وطن عزیز میں پنپ رہی ہیں.ان جرگوں پنچایتوں دوارے کوئی قانون سازی کیوں نہیں کی جاتی اس کا جواب تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کو دینا چائیے. ایک قانون فورا بننا چاھیے جس کے تحت ملک کے کسی بھی حصے میں ایسے جرگے یا پنچایتیں لگانے والے افراد کو شناخت کرنے کیلئے خصوصی پولیس فورس تشکیل دی جائے اور ان جرگوں یا پنچایتوں کو منعقد کرنے والوں کو دہشت گردی کی دفعات کے تحت گرفتار کر کے سزائیں دی جائیں۔
دوسری جانب غیرت بریگیڈ سے بھی اب نپٹنے کا وقت آن پہنچا ہے. یہ غیرت بریگیڈ جو خواتین کے دوپٹوں سے لیکر ان کے لباس تک پر ہمہ وقت نظریں جمائے رکھتی ہے اور بے حیائی کی گرداب الاپتی رہتی ہے اس بریگیڈ کو عنبرین یا اس جیسی کئی بچیوں کے قتل کے جرم میں مجرم گردانتے ہوئے شامل تفتیش کرنا چاھیے. کبھی مذہب کبھی معاشرتی اقدار کا رونا روتے یہ ذہنی بیمار غیرت بریگیڈ معاشرے میں بچیوں دوارے نفرت اور شدت پسندی کے بیج بونے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے. کبھی نیو ائیر نائٹ کبھی ویلنٹائن ڈے کبھی جامعات میں طالبات کے کرکٹ کھیلنے پر پابندی جیسے لاتعداد واقعات معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں.محرومیوں اور طاقتور سے شکست کھائے مرد حضرات پھر اپنی مایوسی بچیوں پر نکال کر اپنی مردانگی کی انا کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔
Honor killing
حالانکہ غیرت کے نام پر قتل یا محبت کی شادی میں مدد کے نام پر عنبرین جیسی بچیوں کو جلا دینے والے درندوں اور ان کے ہمدردوں سے بڑھ کر بڑا نامرد کوئی نہیں ہو سکتا .اور جس تعداد میں عنبرین جیسی بچیاں غیرت عزت یا شرم و حیا کے نام پر قتل کی جاتی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ نامردوں کا معاشرہ ہے.ایسے نامرد جو اپنی نامردی کو چھپانے کیلئے بچیوِں کو زور زبردستی دبا کر اور مار کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ نامرد نہیں. عنبرین ایک نویں جماعت کی طالبہ تھی اگر تو اس معاشرے کی غیرت اور معاشرتی بنیاد کو ایک نویں جماعت کی معصوم بچی سے خطرہ ہے تو پھر ایسے معاشرے کی بنیادیں کھوکھلی اور کمزور ہو چکی ہیں اور اسے گل سڑ کر ختم ہو جانا چاھیے۔
کہ جو معاشرہ عنبرین جیسی ننھی کلیوں کو زندگی کی بقا کی ضمانت نہیں دے سکتا خود اس معاشرے کی اپنی بقا کی بھی پھر کوئی خاص ضرورت یا اہمیت باقی نہیں رہ جاتی. اور جہاں تک بات غیرت کی ہے تو ایک بچی کو مار کر جلانے والے افراد اور پھر ایسے واقعات کو مذہب یا معاشرتی اقدار کی ڈھال استعمال کرتے ہوئے ان کی خاموش حمایت کرنے والے افراد یا معاشرہ بے غیرت تو ہو سکتا ہے غیرت مند نہیں. عنبرین اگر اس علاقے کے کسی بااثر اور طاقتور شخصیت کی بیٹی ہوتی تو یقین کیجئے اس جرگے اور بقیہ فریقین کے افراد کی غیرت بھنگ پی کر سوئی رہتی اور کسی کو جرات بھی نہ ہوتی کہ وہ عنبرین سے کوئی سوال پوچھنے تک کی جسارت کر سکے. یہ ہے اس غیرت کا معیار جسے مزہبی چورن فروش اور عہد رفتہ میں بسنے والے دانشور ہمہ وقت اپنی قوم اور معاشرے کا ہتھیار سمجھتے ہیں.اور جو صرف کمزور فریق کو دیکھ کر جاگتی ہے۔
اسی علاقے ایبٹ آباد میں کچھ عرصہ قبل امریکی فوج نے ملکی سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے ایبٹ آباد پر حملہ کر کے اسامہ بن لادن کو یہاں سے بر آمد کر کے قتل کیا تھا جب یہ واقعہ ہوا تھا تو اس واقعے کے کئی دن بعد تک غیرت بریگیڈ چوہوں کی طرح بل میں گھس کر بیٹھ گئی تھی کسی غیرت کے داعی دانشور نے ٹی وی پر آ کر کچھ کہنے کی ہمت نہ کی کسی مذہبی یا جہادی تنظیم کو توفیق نہ ہوئی کہ اس وقت غیرت کا مظاہرہ کرنے کی ہمت کرتے. خیر ہم میں سے کس کو فرصت جو عنبرین جیسی بچیوں کے بارے میں سوچے ان کے حق میں صدا بلند کرے۔
Civilized Society
کسی بھی مہذب معاشرے میں اس طرح کے لرزہ خیز واقعات معاشروں کا سر جھکانے کیلئے کافی ہوتے ہیں لیکن اس کے لیئے معاشروں کا مہذب ہونا اور انسانیت کی معراج پر فائز ہونا ضروری ہوتا ہے اور بدقسمتی سے ہم اس معراج یا رتبے کے قریب بھی نہیں ہیں.عنبرین قتل نہیں ہوئی بلکہ ہمارے معاشرے کی انسانی اور تہذیبی اقدار قتل ہوئیں ہیں اور نہ جانے ایک جنگلی معاشرے سے انسانی معاشرہ بننے میں ہمیں اور کتنی صدیاں مزید درکار ہوں گی۔