پاکستان میں چھوٹی بڑی کوئی سینکڑوں سیاسی و مذہبی جماعتیں موجود ہیں اور ہر کوئی اپنے آپ کو پاکستان میں مکمل جمہوریت کے نفاذ کا چیمپین بتاتا نظر آتاہے ہر کسی پارٹی کا دعوی ٰ ہے کہ اس کی جماعت نے پاکستان میں جمہوریت کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں لیکن جب آپ تمام جماعتوں کا جائزہ لیں گے تو آپ کو ان سینکڑوں جماعتوں میں سے صرف ایک جماعت کے علاوہ تمام میں جمہوریت اور الیکشن نام کی کوئی چیز ہی نظر نہیں آئے گی۔۔
اگر کچھ جماعتوں میں الیکشن ہوں بھی تو وہ کاغذی کاروائی سے آگے کچھ نہیں ہوتا اور مرکزی قیادت کی مرضی سے ہی نیچے تمام عہدران کو مقرر کر دیا جاتا ہے ابھی حال ہی میں تحریک انصاف کاجو پارٹی الیکشن ہواتھا اس موقع پر تقریبا ہر ضلع میں لڑائی جھگڑے اور عہدے حاصل کرنے کی جو تڑپ اورطریقہ کار سامنا آیا اللہ کی پناہ اپنے ہی ساتھیوں اور پارٹی کارکنان کے خلاف ایسے ایسے حربے کہ ابھی تک بھی تعلقات اپنی جگہ وآپس نہ ا سکے۔
بحثیت مجموعی تحریک انصاف اپنی پارٹی میں پاکستان میں الیکشن کروانے والی جماعتوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر آگی یہ بھی خوش آئند بات ہے۔اور اب ہم بات کریںگے پاکستان میں جمہوریت کے حوالے سے سب سے بڑی اور اول نمبر پر شمار ہونے والی جماعت اسلامی کے بارے میں جماعت اسلامی سے سیاسی اور نظریاتی طور پر سینکڑوں نہیں ہزاروں نہیں لاکھوں اختلافات کیے جاسکتے ہیں لیکن جماعت اسلامی کا بڑے سے بڑا مخالف بھی یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ جماعت اسلامی ہی وہ واحد پارٹی ہے جس میں دستور کے مطابق ہر مقررہ مدت بعدپارٹی الیکشن ہوتے ہیں۔اور قیادت دستور کے مطابق بدلتی ہے۔
جماعت کا ہر ذمہ دار الیکشن کے اس مراحلے سے گزر کر آتا ہے ۔جماعت اسلامی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کے موجودہ تمام مرکزی لیڈر مقامی سطح کی قیادت سے سفر طے کرتے ہوئے مرکزی قیادت تک پہنچے ہیں۔جماعت اسلامی کا ہی یہ طرہ امتیاز ہے کہ اس میں پارٹی الیکشن کیلے نہ تو کوئی امیدوار ہوتا ہے اور نہ کوئی اپنے لیے یا دوسرے کے لیے ووٹ مانگتاہے اور نہ ہی گروپ بندی کا شکار ہوتاہے۔ سب سے بڑی خوبی یہ دیکھنے میںآئی ہے کہ جماعت اسلامی میںکسی بھی سطح پر کوئی امیدوار نہیں ہوتا مرکز سے لیکر یونین کونسل تک ہر رکن کو الیکشن کے لیے تمام ارکان کی فہرست اوربیلٹ پیپرفراہم کردیاجاتا ہے وہ ان تمام ارکان میں سے دستور کے مطابق کسی ایک رکن کو اپناووٹ دے دیتا ہے۔اسی طرح مرکزی امیر کا انتخاب 5سال کے لیے کیا جاتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ یہ اعزاز بھی جماعت اسلامی کے ہی پاس ہے کہ آج تک جتنے بھی مرکزی امیر منتخب ہوئے ہیں ان کی سب ایک خوبی رہی اور جو بعد میں روایت ہی بن گئی ہے کہ ہر مرکزی امیر نے خود اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے معذرت کی اور درخواست کی کہ ان کا نام اب فہرست میں شامل نہ کیا جائے ۔پہلے امیر سید ابواعلی مودودی 1941سے1972تک کئی دفعہ امیر منتخب ہوئے اور 32سال امیر رہنے کے بعد آپ نے خرابی صحت کے باعث آئندہ ذمہ داری قبول کرنے سے معذرت کرلی ۔جس پر ارکین جماعت اسلامی اس وقت کے جنرل سیکرٹری میاں طفیل محمد کو مرکزی امیر منتخب کرلیا ۔اسی طرح پھر میاں طفیل محمد بھی (3)دفعہ امیر منتخب ہوتے رہے اور آپ بھی 1972سے 1987 تک تقریبا15سال جماعت اسلامی کے امیر رہیے ۔ ۔آپ نے بھی بانی جماعت سید ابواعلی مودودی کی راویت پر چلتے ہوئے آئندہ کے لیے اپنانام فہرست میں نہ شامل کرنے کی درخواست کی ۔جس پر اراکین جماعت اسلامی نے اس وقت کے جنرل سیکرٹری قاضی حسین احمد کو امیر جماعت منتخب کرلیا ۔قاضی حسین احمد نے اپنے دورامارت میں جماعت اسلامی کو نہ صرف پاکستان کی گلی محلوں معتارف کروایا بالکہ دنیا بھر میں بھی جماعت اسلامی کو پہچان دلوائی۔
Jammat e Islami
جماعت اسلامی اتحاد امت کی جدوجہد کرنے والی دنیا کی کی بڑی تحریکوں میں سے ایک بن گئی۔قاضی حسین احمد تو خود اتحاد امت کی ایک چلتی پھرتی تحریک تھے۔پاکستان میں اتحاد امت کی جتنی کوشیش قاضی حسین احمد نے کیں۔شائد ہی کوئی اس بات میں ان کا مقابلہ کر سکے ۔لیکن اب توقاضی صاحب اپنے رب کی جنتوں میں اس کا اجر پا رہے ہوں گے ۔قاضی صاحب بھی (5) دفعہ امیر جماعت منتخب ہوئے اور 1987 سے 2009 تک 22 سال تک امیر جماعت اسلامی پاکستان رہنے کے بعد آخر کار آپ نے بھی اپنے سابقہ رہنماوں کی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے مرکزی شوریٰ سے درخوست کی کہ اب ان کا نام فہرست میں شامل نہ کیا جائے کیونکہ اب صحت اتنا بوجھ برداشت کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔مرکزی شوریٰ نے آپ کی درخواست کو قبول کیا۔اور اس وقت کے جنرل سیکرٹری سید منور حسن امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب ہوئے اب ایک بار پھر امیر جماعت کے انتخاب کا مرحلہ جاری ہے ۔پاکستان بھر کے ارکان اپنے دستور کی دفعہ نمبر 13کے ان الفاظ کی رہنما ئی میں امیر جماعت اسلامی کا انتخاب کرینگے دستور کہ وہ الفاظ یہ ہیں کہ جس کو آپ منتخب کرنے جارہیے ہیں (1)یہ کہ نہ وہ امارت کا خودامیدوارہواورنہ اس سے ایسی کوئی بات ظہور میںآئی ہو جوپتہ دیتی ہوکہ وہ امارت کاخودخواہیش مندیااسکے لیے کوشاں ہے(2)یہ کہ ارکان جماعت اس کے تقویٰ علم کتاب وسنت،امانت ودیانت ،دینی بصیرت،تحریک اسلامی کے فہم،اصابت رائے،تدبر،قوت فیصلہ ،راہ خدا میں ثبات واستقامت اورنظم جماعت کو چلانے کی اہلیت پراعتماد رکھتے ہوں۔۔دستور کی ان ہدایات کی روشنی میں ارکان اپنے امیر کا انتخاب کرتے ہیں۔مرکزی امیر کے انتخاب کے لیے ناظم انتخاب جو منتخب ہوتاہے وہ مرکزی شوریٰ سے تین نام پاکستان بھر کے ارکان کی سہولت کے لیے حاصل کرتاہے ۔جو حروف تہجی کے اعتبار سے درج کیے جاتے ہیں ۔ان ناموں کے ساتھ ایک نوٹ لکھا ہوتا ہے جو ہر رکن جماعت کو بیلٹ پیپر کے ساتھ بذریعہ ڈاک اس کے گھر پہنچ جاتاہے۔اس دفعہ بھی ارکان کی سہولت کے لیے تین نام حروف تہجی کے اعتبار سے دیئے گے ہیں۔(1)سراج الحق(2)لیاقت بلوچ(3) سید منور حسن (نوٹ)مرکزی شوریٰ نے یہ تین نام ارکان کی سہولت کے لیے تجویز کیے ہیں۔
رائے دہندہ کو اختیار ہے کہ وہ ان کے علاوہ بھی کسی اوررکن جماعت کوامارت کیلیے اہل اور موزوں سمجھتا ہ وتو وہ ان کے حق میں رائے دے سکتا ہے۔اکثر لوگوں کے لیے یہ تمام باتیں حیرت انگیز ہونگی جو جماعت اسلامی کے نظام انتخاب سے واقف نہیں کہ پاکستان میں بھی ایسا پاکیزہ انتخاب ممکن ہے۔ جی ہاں 73سال سے جماعت اسلامی کے اندر یہ نظام مضبوطی کے ساتھ قائم و دائم ہے۔
اصل میں پاکستان کی سیاسی جماعتیں صرف کاغذی کاروائی کے لیے اپنی پارٹی میں اس لیے انتخاب کے نام پر عہدران کو مقرر کرتی ہیں کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ شرط ہے کہ وہ پارٹی پاکستان کے الیکشن میں حصہ لیے سکے گی جو اپنی جماعت میں الیکشن کروائی گی۔اگر تمام پاکستان کی تمام جماعتیں جماعت اسلامی کی طرح اپنی اپنی پارٹی میں شفاف انداز میں الیکشن کروائے تو پاکستان سے مورثی سیاست اور منافقت کا خاتمہ ہوجائے اور جمہوریت مضبوط ترین ہو۔