کرونائی حالات میں ملک میں ایک بار پھر اٹھارہویں آئینی ترمیم پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے بیانات کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ قارئین کو یہ بتانا ضروری ہے کہ جمہوری طاقتوں کو اٹھارہویں آئینی ترمیم لانے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور کون سی ایسی وجہ تھی جسے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے 2010 میں اتفاق رائے سے منظور کیا، کیا یہ ترمیم ملک کے لئے سود مند تھی اور اگر تھی تو اب ایسی کیا صورتحال پیدا ہو گئی کہ تحریک انصاف اور اس کے اتحادی مسلسل بیان بازی سے اٹھارہویں ترمیم کوادھورا ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جیسا کہ کچھ عرصہ قبل وزیراعظم عمران خان نے صوبائی خود مختاری سے وفاق کو درپیش مالی مشکلات کے معاملے پر اٹھارہویں ترمیم کو ہدف تنقید بنایا تھا جس کے بعد سے یہ سلسلہ چل نکلا۔ کچھ عرصہ قبل سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی نے پریس کانفرنس میں کہا تھاکہ پی ٹی آئی اٹھارہویں ترمیم میں ترامیم کرے گی۔ اٹھارہویں ترمیم کوئی مذہبی دستاویز نہیں، اسے انسانوں نے بنایا تھا۔ وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا نے بھی پیچھے نہ رہتے ہوئے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم وفاق کا قتل ہے، اٹھارہویں ترمیم کی شقوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومتی شخصیات کے مقابلے پر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور اے این پی کے رہنما مسلسل اس ترمیم کا دفاع کر رہے ہیں اور خبردار کر رہے ہیں کہ ایسا کوئی بھی اقدام صوبوں کی علیحدگی کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔ یہ سیاسی جماعتیں اس خدشہ کا اظہار کر رہی ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی بنیادی وجہ پارلیمانی نظام حکومت ختم کر کے صدارتی نظام کی راہ ہموار کرنا ہے۔
ابھی چند دنوں سے یہ قصہ پارینہ ایک بار پھر چل نکلا ہے۔جس میں حکمران جماعت کی جانب سے بتایا جا رہا ہے کہ حکومت این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارہویں ترمیم کے تحت ہونے والی اقدامات اور اصلاحات کا جائزہ لے گی اور اگر ضروری ہوا تو اس میں مختلف سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد ترمیم بھی کرے گی جسکے لیے مختلف سیاسی جماعتوں سے مشاورت بھی مکمل کر لی گئی ہے کیونکہ این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے صوبوں کو دیئے جانے والے فنڈز کرپشن کی نذر ہو رہے ہیں اور حقیقی معنوںمیںعوام پر خرچ نہیں ہو رہے۔اس ترمیم کے ذریعے صوبوں نے اپنے اختیارات میں بے حد اضافہ تو کر لیا لیکن اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کو یقینی نہیں بنایا جس سے یہ سوالات جنم لینے لگے ہیں کہ یہ سب کچھ ذاتی مفادات کی خاطر تو نہیں کیا گیا تھا۔ اب آپ دیکھیںکہ 18ویں ترمیم کے مطابق صوبائی حکومت وفاق یا کسی اہلکار کو اپنا اختیار دیتی ہے تو اس کی اسے صوبائی اسمبلی سے توثیق کروانا لازمی ہوگی، وفاقی حکومت اس صوبے سے مشاورت کی پابند ہوگی جہاںآبی ذخیرہ تعمیر کیا جا رہا ہوگا،صوبوں کا حصہ آخری این ایف سی ایوارڈ سے کم نہیں کیا جا سکے گا، صوبوں کو قومی مالیاتی کمیشن کی مقرر کردہ حد کے اندر مقامی یا بین الاقوامی سطح پر قرضے حاصل کرنے کی اجازت ہوگی۔اس طرح کی کئی ایک شقوں کو دیکھتے ہوئے میرا ماننا یہ ہے کہ صوبوں کی وجہ سے وفاق مضبوط ہونا چاہئے نہ کہ صوبے مضبوط اور وفاق کمزور ہو جائے۔
اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت دیگر اہم شعبوں کی طرح صحت اور تعلیم جیسے دو اہم شعبوں کو مکمل طور پر صوبوں کے سپرد کر دیا گیا۔ آج ان شعبوں کی زبوں حالی دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ دنیا بھر میں تعلیم کا شعبہ وفاقی حکومت اپنے پاس رکھتی ہے اور نوجوان نسل میں قومی سوچ پیدا کرنے اور یکساں سمت متعین کرنے کیلئے تعلیمی نصاب مرکزی حکومت تیار کرتی ہے۔اب اس ترمیم کی وجہ سے تعلیمی نصاب تیار کرنے میں صوبے خودمختار ہیںاور وہ جیسا چاہیں نصاب تیار کر سکتے ہیں جس کا نقصان ہمیں ایک قوم نہ بن سکنے کی صورت میں نکلے گا۔ جب تعلیمی نصاب ایک نہیں ہو گا تو یقناً قومی وحدت اور سوچ ایک نہیں ہو سکتی ۔ اس کا نتیجہ ہم مشرقی پاکستان میں دیکھ چکے ہیں۔وہاں تعلیمی نصاب میں ایک طبقے نے جان بوجھ کر تبدیلیاں کروائیں ۔ اس نصاب کو پڑھانے والے ہندو اساتذہ نے ہماری قوم میںنفرت کا بیج بویا اور نوجوان نسل میں علحیدگی کی تحریک پیدا کی۔ انہیں باور کروایا گیا کہ تمہارا مال پر مغربی پاکستان عیش کررہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ مشرقی پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کے وفد نے جب اسلام آباد کا دورہ کیا تو کہا کہ اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بُو آرہی ہے۔ ہمیں قومی نصاب نہ ہونے کا خمیازہ بھگتا پڑا۔ اب بھی وقت ہے ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہیں اور عمران خان کے اس بیانیے کو قومی سوچ کا تقاضا قرار دینا چاہیے کہ ہمیں ایک قوم بننے کے لیے یکساںتعلیمی نظام اور نصاب رائج کرنا پڑے گا اس کے بغیر ہم ایک قوم نہیں بن سکتے۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج ہم پنجابی، سندھی، پٹھان،بلوچی تو ہیں لیکن پاکستانی نہیںکہلاتے۔
اسی طرح دنیا کے تمام ممالک میں انرجی کے وسائل پر صوبوں کا نہیں مرکزی حکومت کاکنٹرول ہوتا ہے،مگر اٹھارہویں ترمیم میںانرجی پر بھی صوبوں کا کنٹرول تسلیم کرلیا گیا ہے جس سے آئے روز مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اسی طرح فوڈسیکیورٹی اور قومی زرعی پالیسیاں تشکیل دینے کے حوالے سے زراعت ایک قومی شعبہ ہے مگر اٹھارہویں ترمیم کے حامیوں نے اسکے مضمرات کا اندازہ کیے بغیر یہ اہم ترین شعبے صوبوں کے حوالے کر دیے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی زراعت کو تباہ کرنے کیلئے اٹھارہویں ترمیم نے بھی بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اس آئینی ترمیم میںسترہ وزارتیں صوبوں کو دی گئیں جن میں صحت کا شعبہ بھی شامل ہے ۔حالیہ کرونائی حالات میں یہ بھی واضح ہوا کہ صوبے کسی بھی ہنگامی حالات کے لیے تیار نہیں تھے۔ سندھ کے شعبہ صحت کی حالت تو انتہائی ابتر تھی۔ یہ تواللہ بھلا کرے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کا جس نے اٹھائیس فروری کو پہلا کروناء مریض سامنے آنے پر فوراً صوبوں سے وینٹی لیٹرز کا ڈیٹا اکٹھا کیا اورفوری طور پر چین میںاعلیٰ حکام سے رابطہ کرکے اپنے جہاز بھجوا کر ٹیسٹنگ کٹس ، سرجیکل ماسک اور وینٹی لیٹرز منگوائے ، اب تک منگوائے جا رہے ہیں اور جون تک سات سو وینٹی لیٹرز منگوانے ہیں جسکی وجہ سے ملک میں محکمہ صحت کی تیاریاں مکمل کروائی گئیں۔
اٹھارویں ترمیم کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اسے سیاسی مقاصد کیلئے آئین میں شامل کیا گیا۔ اس کا مقصد ہرگز وفاق کو مضبوط کرنا نہیں تھا۔ یہ مقصد ہوتا تو اس میں یہ سقم نہ رکھا جاتا کہ ارکانِ پارلیمینٹ اپنی رائے ہی نہ دے سکیں۔ اگر اس پر بھی آٹھویں ترمیم کی طرح 57 دن بحث ہوتی تو سارے عوامل کھل کر سامنے آجاتے، پھر چور دروازے سے ترمیم کرانے کا تاثر جنم نہ لیتا۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو سیاسی و مالی خود مختاری ملی اور وہ مضبوط ہوئے، لیکن اس کے بدلے میں وفاق پر کیا بیتی اس کا ذکر نہیں کیا جا رہا۔ ایک وفاقی پارلیمانی ملک میں وفاق کی مضبوطی زیادہ اہمیت رکھتی ہے، یہاں معاملہ الٹ نظر آ رہا ہے۔ وفاق کمزور اور صوبے مضبوط ہو رہے ہیں۔پھر صوبوں نے مالی فوائد ملنے کے بعد ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ سندھ میں اربوں روپے کی خورد برد کے شواہد سامنے آ چکے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم چونکہ حقیقی اتفاق رائے پیدا کرنے کی بجائے فوری جوڑ توڑ کے ذریعے منظور کرائی گئی تھی اس لئے آئین اسے ہضم کرنے کو تیار نہیں۔کئی حوالوں سے یہ ترمیم آئین کی بنیادی روح کے خلاف نظر آتی ہے۔اگر حکومت سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے اس ادھوری غلطی کو آئین میں درست کرنا چاہتی ہے تو کسی کو اس پر آگ بگولا ہو نے کی ضرور ت نہیں بلکہ انہیں چاہیے کہ وہ ایک اکائی بننے کے لیے اس ترمیم پر حکومت کا ساتھ دیں۔