افغانستان دنیا کا غریب ترین ملک ہے۔نہ اس کی سرحد سے سمندر لگتی ہے اور نہ ہی کوئی قابل ذکرہائی ویز یا ریلوے کا انتظام ہے۔ہر طرف برف پوش پہاڑ ہی پہاڑ ہیں اور صحرا ہے۔اس کے عوام کی زندگی سخت کوشی میں گزرتی ہے۔ اگر اس کا جغرفیہ دیکھا جائے تو مسلمانوں کے سمندر کا ایک حصہ ہے۔اس کی ساری کی ساری آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔مگر دشمنوں نے اپنے اپنے مفادات کے پیش نظر اسے ہمیشہ پاکستان مخالف بنائے رکھا۔ اس کو اگر تاریخی حوالے سے ثابت کریں تو کچھ اسطرح ہے۔ جب بانی پاکستان کی زیر قیادت تحریک پاکستان د و قومی نظریہ کے تحت زروں پر تھی تو ہندولیڈرپریشان ہوتے تھے ۔ انہوں نے اپنی ہندو قوم کو یہ ڈاکٹرائن دیا کہ جب ہم قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کو آہستہ آہستہ کمزور کرتے جائیں گے اور پاکستان کو پھر سے اکھنڈ بھارت میں شامل کر لیں گے۔ مشرقی پاکستان کو فوجی مداخلت سے جب بنگلہ دیش بنایا تو بھارت کی وزیر اعظم نے تاریخی بیان دیا تھا کہ ہم نے قائد اعظم کا دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ مسلمانوں سے ایک ہزار سالی حکمرانی کا بدلہ بھی لے لیا ہے۔ اکھنڈ بھارت کے متوقعہ نقشے پر اگر نظر ڈالیں تو اس میں، برصغیر کے سارے ممالک کے ساتھ ساتھ افغانستان بھی شامل ہیں۔
اسی ڈاکٹرائن کے مطابق مہاتما گاندھی نے اپنی ہندو قوم کو پیغام دیا تھاکہ ”میں پاکستان بننے سے زیادہ پریشان نہیں ہوں۔بلکہ اس بات سے پریشان ہوں کہ جب پاکستان بن جائے گا اور افغانستان کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے سمندر میں مل جائے گا تو پھر پاکستان سے مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس ڈاکٹرائن پر عمل کرتے ہوئے بھارت نے شروع سے ہی افغانستان میں بہت بڑی انوسٹمنٹ کی اور اب بھی کر رہا ہے۔جبکہ مسلمان ہونے کے ناطے افغانستان ، پاکستان کا فطری اتحادی ہے۔اس کے اسلام لانے کا واقعہ بھی عجیب غریب ہے ۔کہا جاتا ہے کہ افغانستان کے ایک شخص قیس عبدلرشید نے مدینہ میں رسولۖ اللہ کے پاس حاضری دی اور اسلام قبول کیا۔ پھر واپس آکر اپنی قوم میں اسلام پھیلایا؟ا یک مغربی صحافی اور” آئی ایم ملالہ ” کتاب کی مصنفہ کرسٹینا لیمب کے مطابق افغان قوم اپنے مقصد کی دھنی ایک اُجھنڈ قوم ہے۔
افغان پشتون کہتے ہیں جب اللہ ساری خوبصورت دنیا بنا چکا تو اس کے پاس کچھ پتھر اور سنگریزے بچ گئے۔ اللہ نے ان کو زمین میں پھینک دیا جس سے افغانستان وجود میں آیا۔حوالہ اردو ترجمہ(کتاب طالبان کا افغانستان) مصنفہ کرسٹینا لیمب ۔کیا فطرت نے قوموں کے زوال و عروج کے لیے افغانستان جیسے خطے بنائے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ افغانستان کبھی بھی کسی قوم کا غلام نہیں رہا۔ اس نے برطانیہ جس کے عروج کے دوران اس کی سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا، کو شکست دی۔ اپنے وقت کی دنیا کی سب سے بڑی مشین سویٹ رشیا، جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ جب یہ جس ملک میں داخل ہو گیا اسے اس ملک سے کوئی بھی نہیں نکال سکتا، کو بھی شکست فاش دی۔ بلکہ سویٹ یونین ٹکڑے ٹکڑے ہوا ۔اس کے بطن سے چھ اسلامی ریاستیں، قازقستان، کرغیزستان، اُزبکستان، ترکمانستان، آزربائیجان ، اور تاجکستان کی شکل میں آزاد ہوئیں ۔مشرقی یورپ آزاد ہوا۔ دیور برلن ٹوٹی ، مشرقی اورمغربی جرمنی یکجان ہوئے۔ اب نیو ورلڈ ڈ آڈر والے امریکا کے ساتھہ دنیا کے ٤٩ ملکوں کی نیٹو افواج کو شکست فاش دی۔امریکا اپنی بچی کچی فوج افغانستان سے نکالنے کے لیے محفوظ راستے کی تلاش میں امن معاہدے کی بھیک مانگ رہا ہے۔کیا فاقہ مست افغان اتنے بہادر ہیں کہ اللہ ان سے بڑی بڑی طاقتوں کو شکست سے دوچار کر تا رہا ہے؟ اگر کسی کو تحقیق کرنی ہے تو یہ کچھ بڑی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ فلسفی شاعر علامہ شیخ محمد اقبالکے ایک شعر سے یہ بات اہل خرد کو سمجھ آ سکتی ہے۔اقبال فرماتے ہیں:۔
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی یا بندہ صحرائی یا مرد ِ کوہستانی
اگر تاریخ پر غور کیا جائے تو تیں بڑی طاقتوں کے اپنے اپنے مقاصد تھے جس کے لیے افغانستان پر چڑھا ئی کی اور شکست سے دوچار ہوئے۔ اللہ کا اپنا ایک نظام ہے۔ جس کے تحت وہ قوموں کے عروج و زوال کا فیصلہ کرتا رہتا ہے۔کمزوروں سے طاقت وروں کو شکست دیتا ہے۔
برطانیہ میں بادشاہت تھی جب وہ ہندوستان پر قابض ہوا تھا۔ اس کا نظام حکومت سرمایادارنہ تھا۔ سویٹ یونین کیمونزم نظام کے تحت دنیا میں بڑھ رہا تھا۔ وہ سویٹ یونین کی سرحدافغانستا ن کے دریائے آمو تک بڑھا چکا تھا۔وہ اپنے لیڈر ، ایڈورڈ کے ڈاکٹرائن کے مطابق گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا تھا۔حوالہ کتاب (روس میں مسلمان قومیں آباد شاہ پوری)۔برٹش ہندوستان اور سویٹ رشیا کے درمیان افغانستان بفر زون کی حیثیت رکھتا تھا۔انگریزوں نے اپنے سلطنت کی مغربی سرحد کو سویٹ یونین کے کیمونزم سے محفوظ کرنے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ انگریز افغانستان کو، لڑ کر تو زیر نگین نہیں رکھ سکے مگر مذاکرات کا ڈھول ڈال کر افغانستان اور برٹش ہندوستان کے درمیان ایک لکیر کھینچنے میں کامیاب ہو گئے تھے جسے ڈیورنڈ لین سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ معاہدے افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمان اور سر ڈیورنڈ کے درمیان ہوا تھا۔ اس معاہدے کی توثیق بعد کی کئی افغان حکومتوں نے کی۔ ڈیورنڈ لین کو سابق صوبہ سرحد موجودیہ خبیر پختونخواہ کے( مرحوم) سرخ پوش، قوم پرست، سرحدی گاندھی غفار خان نے قیام پاکستان کے وقت با نیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے ریفرنڈم میں شکست فاش کھانے کے بعد بھی مسئلہ بنائے رکھا۔پاکستان توڑ کر پشتونستان بنانے کی کوششیں کرتا رہا۔ قوم پرست افغانی اسے با بائے پشتونستان کے خطاب سے پکارتے تھے،۔ اس نے پاکستان میں دفن ہونے کے بجائے افغانستان کے شہر جلال آباد میں دفن ہونا پسند کیا۔افغانستان کی ساری قوم پرست سیکولر حکومتوں نے ڈیورنڈ لین کے مسئلہ کو پاکستان کے ساتھ بھارت اور روس کی شہ پر اُٹھائے رکھا۔ افغانستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ افغان طالبان کی اسلامی حکومت نے اسے ختم کیا تھا۔ اس سے پاکستان کی مغربی سرحد محفوظ ہو گئی تھی۔
سویٹ یونین نے ظاہر شاہ کی حکومت کے دوران افغانستان میں اپنا اثر رسوخ بڑھانا شروع کیا تھا۔جیسے اُوپر بیان کیا گیا ہے کہ گرم پانیوں تک آنے کے ڈاکٹرائن پر عمل درآمد کر تا رہا۔ امداد کے نام پر افغانستان کے نوجوانوں اپنے عزاہم کی تکمیل کے لیے کیمونزم کو افغانستان میں پھیلایا۔ظاہر شاہ کا تختہ سردار دائود کو استعمال کر کے اُلٹایا۔جب سردار دائود سے بھی کام لے چکا تو اپنے ہاں تربیت پانے والے کیمونسٹ لیڈر ببرک کارمل کو بلا آخر ٹینکوں پر بیٹھا کر افغانستان کی سرحدپار کر کے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔افغانوں نے سویٹ یونین کے خلاف درے کی بندوقوں سے جہاد شروع کیا۔ پھر پاکستان میں (مرحوم)ذوالفقار علی بٹھو صاحب سے مدد کے لیے رابطہ کیا۔ بھٹو جہاندیدہ سیاستدان تھا۔ اُس نے افغانوں کی ڈائیرکٹ مدد کی بجائے اسلحہ کے لیے رقم مہیا کی۔ دو سال تک افغان درے کی بندوقوں سے روسی فوج سے گوریلا لڑائی لڑ تے رہے۔ پچاس لاکھ سے زیادہ مہاجرین پاکستان اور اس سے کچھ کم ایران میں پناہ گزین ہوئے۔ ساری دنیا کے اسلام پسندوں نے اسلام دشمن کیمونزم سے جہاد لڑنے والے افغان مجائدین کی مدد کی۔ اسلامی دینا کے جہادی افغانستان آئے ۔پاکستان ن اس مدد میں پیش پیش تھا۔ دو سال بعد امریکا سویت یونین کے کیمونزم کو شکست دینے کے افغان مجائدین کی مدد کے لیے میدان میں کود پڑا۔ امریکا کے اسٹنگر میزائیل نے سویت یونین کی ہوائی قوت کو توڑا۔بلا آخر سویت یونین مذاکرات کا ڈھول ڈال کر افغانستان سے رسوا ہو کر نکل گیا۔
امریکا نے افغان مجائدین کی سویٹ قبضہ کے وقت مدد کی تھی۔ امریکا مجائدین کے ساتھ تصویریں بنا کر دنیا کے سامنے بڑے فخر سے پیش کیا کرتا تھا۔روس نے افغانستان میں تباہی پھیلائی تھی۔ افغان مجائدین کے نو(٩) ہ جہادی گروپوں نے سویت یونین کو شکست دی تھی۔ان کا مطالبہ تھا کی ان نوجہادی گروپوں کے نمائندوںپر مشتمل عبوری حکومت قائم کی جائے ۔عبوری حکومت عام الیکشن کرائے ۔ آزاد الیکشن کے ذریعے عوام کی رائے سے جیتنے والے افغانستان میں حکومت بنائے۔ امریکا نے پاکستان کی حکومت کو ڈرایا کہ اگر افغانستان میں اسلامی جہادی قائم حکومت ہو گئی تو وہ اسے پاکستان میں بھی لے آئیں گے اور تمھاری عیاشیوں ختم ہو جائیں گی۔امریکا کے جال میں پھنس کر پاکستان حکومت نے باہر سے آئے ہوئے جہادیوں کو پکڑنا شروع کیا۔ انہیں عادی مجرموں کے ساتھ قید کیا۔ ایک کم طاقت والے صبغت اللہ مجددی کو افغانستان کا صدر نامزد کر دیا۔افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوئی۔دینی مدرسوں میں پڑھے ہوئے طالبان نے افغانستان میں امن قائم کرنے کے سفید جھنڈا لہرا دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان میں امن قائم ہو گیا۔ افیون کی کاشست ختم کر دی گئی۔وار لارڈز سے اسلحہ واپس حکومتی مال خانے میں جمع کروایا۔ پھر کریڈٹ لینے والوں نے کریڈ لینا شروع کیا۔ پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ نے کہا کہ طالبان ہمارے بچے ہیں۔ ایک خاص مکتبہ فکر کے دینی سربراہ نے کہا کہ طالبان ہمارے دینی مدرسوں کے پڑھے ہوئے طالب علم ہیں۔بحر حال افغان عوام نے سکھ کا سانس لیا۔
ملا عمر کو اپنا امیر المومنیں منتخب کر لیا۔ اسلامی شری عدالتیں قائم ہو گئیں۔کچھ جزوی کمزرویوں کے باجود افغانستان کے حالت بہتر ہونے لگے۔ پاکستان اور سعودی عرب نے افغانستان کی اسلامی حکومت کو قانونی طور پر تسلم کر لیا۔ تاریخ میں پہلی بار پاکستان اور افغانستان میں تعلوقات مثالی ہو گئے۔پاکستان کی مغربی سرحد طالبان محفوط ہو گئی۔مگر افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت امریکا کو اور خیبر پختون خواہ کے قوم پرستوں کوہضم نہیں ہوئی اور نہ ہی پاکستان کی روشن خیال سیکولر پارٹیوں کو۔ ان دنوں مرکز میںپیپلز پارٹی، خیبر پختون خواہ میں قوم پرست نیشنل عوام پارٹی اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت تھی۔ انہوں نے طالبان کے خلاف امریکا کی کھل کرحمایت کی۔ امریکا نے بھی محسوس کیا کہ اسلامی حکومت آگے بڑھ کے مسلمانوں کی خلافت کی بحالی کے لیے کام کرے گی۔امریکا نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو استعمال کیا تھا۔ ڈکٹیٹر ایک فون کال پر افغانستان طالبان حکومت کے خلاف امریکا کا کرایہ کا فوجی بن گیا۔ پورے پاکستان کو لاجسٹک سپورٹ کے نام پر امریکا کے حوالے کر دیا۔ امریکا اور نیٹو کے ٤٨ ملکوں کی فوجوں نے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ فاقہ مست افغانوں نے اللہ کے بھروصے پر پھر گوریلہ لڑائی شروع کی۔
اب سوائے اللہ کے طالبان کا کوئی بھی مدد گار نہ تھا۔ نہ اسلامی دنیا کے عوام اور نہ ہی امریکی پٹھو مسلم حکمران اور نہ ہی وارلڈ پاور امریکا کا کوئی دشمن ملک۔ پروگرام کے مطابق پاکستان کے دشمنوں، جس میں گریٹ گیم کے تینوں اہل کار، بھارت، اسرائیل اور امریکا نے پاکستان میں دہشت گردی پھیلا دی۔ امریکا نے پاکستانی قوم پر ستوں پرمبنی” تحریک طالبان پاکستان” بنائی۔دہشت گردی امریکی کمپنی بلیک واٹر کرتی اور اس کی ذمہ واری تحریک طالبان پاکستان قبول کر لیتی۔ امریکا نے پاکستان کوکیری لوگر بل کے تحت مدد دے کر اپنے ہی رعایاسے لڑا دیا۔قبائلی علاقوں میں کئی فوجی آپریشن ہوئے۔ اُدھرفاقہ مست افغان طالبان کے افغانستان کو امریکا نے تورابورا بنا دیا۔ مگر طالبان تن تنہا صرف اور صرف اللہ کے بروصے پر امریکا اور نیٹو کے سامنے ڈٹے رہے۔
شکست تسلیم کرتے ہوئے ایک ایک کر کے نیٹو ممالک نے اپنی فوجیں افغانستان سے نکال لیں۔ امریکا نے صرف دس ہزار فوجی افغانستان میں رکھے۔اب امریکا افغانستان کی دلدل سے نکلنے کے لیے افغان طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے۔ امریکا نے کوشش کی کہ پاکستان کی فوج کو طالبان سے لڑا دے۔ مگر اللہ کالاکھ لاکھ شکر ہے کہ فوج نے کہہ دیا ہے ہم نے بہت کچھ کیا اب دنیا ڈو مور کرے ۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان صاحب نے بھی کہ دیا کہ اب ہماری فوج کسی کے لیے کرائے کی فوج نہیںبنے گی۔اللہ کا شکر ہے فوج اور سیاسی حکومت ایک پیج پر ہے۔امریکا کو افغانستان سے نکلنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔ افغان طالبان کی امریکا سے مذاکرات کے ایجنڈے کا پہلا آئٹم افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا ہے۔ لگتا ہے کہ جلد ہی امریکا افغانستان کی دلدل سے نکل جائے گا۔ یہی اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ کمزروں کو طاقتورں پر فتح عطا کرتا رہا ہے۔ جب تک ہمارے پڑوسی مسلمان ملک افغانستان کے کوہسار باقی ! افغان باقی۔ انشاء اللہ۔