ترکی (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر جوبائیڈن کا سلطنت عثمانیہ کی افواج کے ہاتھوں آرمینیائی باشندوں کے قتلِ عام کو نسل کشی قرار دینا بالکل سادہ الفاظ میں ایک اشتعال انگیز اقدام ہے اور ترکی آیندہ مہینوں میں اس کا جواب دے گا۔‘‘
یہ بات ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ترجمان اور مشیرابراہیم کالین نے اتوار کوایک انٹرویو میں کہی ہے۔انھوں نے کہا کہ ’’آیندہ دنوں اور مہینوں میں مختلف شکلوں کی صورت میں اور طریقوں سے اس پر ردعمل ظاہر کیا جائے گا۔‘‘
لیکن صدر کے ترجمان نے یہ واضح نہیں کیا کہ ترکی امریکا کے خلاف ردعمل میں کیا کیا اقدامات کرے گا اور آیا وہ ملک کے جنوب میں واقع انچرلیک کے فوجی اڈے کوبھی امریکی فوج سے واپس لے لے گا۔یہ فوجی اڈا شام اورعراق میں داعش کے خلاف کارروائی میں امریکا کی قیادت میں اتحادی فوج کے زیراستعمال ہے اور اسی اڈے سے امریکا کے لڑاکا جیٹ اڑ کر شام میں داعش کے ٹھکانوں کو فضائی حملوں میں نشانہ بناتے رہے ہیں۔
ابراہیم کالین نے بتایا کہ ’’صدر ایردوآن سوموار کو کابینہ کے اجلاس میں اس معاملے پرگفتگو کریں گے۔ہم اس ’’بدقسمت اورغیرمنصفانہ‘‘ بیان پرمناسب ردعمل کے لیے وقت اور جگہ کا فیصلہ کریں گے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ امریکا کے ساتھ اب ہم جو بھی معاملہ کریں گے، وہ اس بہت بدقسمت بیان کی روشنی میں کیا جائے گا۔ان کے بہ قول ترک پارلیمان بھی اسی ہفتے اس موضوع پر بیان جاری کرے گی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترک پارلیمان بھی جوابی وار میں یورپی آبادکاروں کے مقامی امریکیوں سے نارواسلوک کو نسل کشی قرار دے گی۔اس کے علاوہ ترکی امریکا کے ساتھ شمالی شام اور عراق میں داعش ایسے جنگجو گروپوں کے خلاف مہم میں سکیورٹی تعاون بھی ختم کرسکتا ہے۔
ابراہیم کالین نے کہا کہ ’’پہلی عالمی جنگ میں جو کچھ ہوا،اس کو صرف ایک لفظ تک محدود کردینا اورہمارے عثمانی آباء واجداد کو نسل کشی کے افعال میں ملوّث قرار دینا تو سادہ الفاظ میں اشتعال انگیزی ہے جبکہ تاریخی حقائق بھی اس کی تائید نہیں کرتے ہیں۔‘‘
امریکی صدرجوبائیڈن نے ہفتے کے روز 1915ء میں سلطنت عثمانیہ کی فوج کے ہاتھوں آرمینیائی باشندوں کے قتلِ عام کو نسل کشی تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا اور وہ یہ فیصلہ کرنے والے امریکا کے پہلے صدرہیں جبکہ ترکی نے ان کے بیان کو فوری طور پر مسترد کردیا تھااور اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی۔
انھوں نے جمعہ کو ترک صدر طیب ایردوآن سے ٹیلی فون پر بات چیت کی تھی اورانھیں اپنے اس فیصلہ سے مطلع کردیا تھا لیکن صدرایردوآن نے ان سے گفتگو میں کہا تھا کہ اگر انھوں نے ایسا کوئی فیصلہ کیا تو اس سے دونوں ملکوں کے دوطرفہ تعلقات کے لیےسنگین مضمرات ہوں گے۔
صدر بائیڈن نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’’ہم ان تمام لوگوں کو یادکررہے ہیں جوعثمانیہ دور میں آرمینیاؤں کی نسل کشی کے وقت مارے گئے تھے۔ہم خود سے اس عزم کااعادہ کرتے ہیں کہ اس طرح کے قتل عام کا پھر کبھی اعادہ نہ ہو۔‘‘
امریکی صدر کے اس بیان کو آرمینیا اور بالخصوص بیرون ملک رہنے والے آرمینیائی باشندوں کی ایک بڑی فتح قرار دیا جارہا ہے۔وہ امریکا سے ایک عرصے سے اپنے آباء واجداد کے پہلی عالمی جنگ کے دوران میں عثمانی فوج کے ہاتھوں قتل عام کو نسل کشی قرار دینے کا مطالبہ کررہے تھے۔آرمینیائی باشندے ہر سال 24 اپریل کو دنیا بھرمیں ایک صدی قبل اپنی نسل کے قریباً 15 لاکھ افراد کے قتل عام کی یاد میں دن مناتے اور مظاہرے کرتے ہیں۔
آرمینیا کا یہ مؤقف ہے کہ سلطنت عثمانیہ کی فوج نے پہلی عالمی جنگ کے دوران میں ان لاکھوں افراد کا قتلِ عام کیا تھا۔اس کا مقصد اس مسیحی نسلی گروپ کی تطہیر تھا۔ترکی اس بات کو تو تسلیم کرتا ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ کی فوج کے ساتھ جنگ میں بہت سے آرمینیائی باشندے ہلاک ہوگئے تھے لیکن وہ انھیں ایسے منظم انداز میں قتل کرنے کے الزامات کی تردید کرتا ہے جنھیں مغرب کی اصطلاح میں نسل کشی قرار دیا جا سکے۔
مغربی ممالک ایک عرصے سے آرمینیائی باشندوں کی ہلاکتوں کو نسل کشی قرار دیتے چلے آرہے ہیں جبکہ ترکی کا کہنا ہے کہ آرمینیائی باشندے جنگ میں کام آئے تھے اور ان کی ہلاکتیں کسی منظم مہم کا شاخسانہ نہیں تھیں۔
یادرہے کہ یوروگوائے نے 1965ء میں سب سے پہلے اس قتل عام کے لیے نسل کشی کی اصطلاح استعمال کی تھی۔اس کے بعد سے فرانس ، جرمنی ، کینیڈا اور روس سمیت متعدد ممالک آرمینیائی باشندوں کی نسل کشی کو تسلیم کرچکے ہیں لیکن جو بائیڈن کے پیش روسابق امریکی صدور نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تھا۔