تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری ٹرمپ کی ٹرمپیاں ایسی بدرنگیاں لارہی ہیں کہ امریکہ میں بھی اس کے خلاف نفرت کے الائو بھڑک جل رہے ہیں افغانستان میں مزید بھجوانے کا اعلان اس کے دور حکومت کا احمقانہ ترین فیصلہ ہے پہلے ہی وہاں پر غلطان پالیسیوں سے نیٹو افواج بالخصوص امریکن سپاہی خودکشیاں کرتے مر رہے ہیں اور لاشیں جب امریکہ پہنچتی ہیں تو وہاں کہرام مچ جاتا ہے اب تو افغانستان میں لاقانونیت کی انتہا ہو چکی ہے ٹائوٹ حکمرانوں کوحالات پر مکمل کنٹرول کرنے میںناکامی ہے بالخصوص حکومتی ہیڈ کوارٹر کابل تو جل رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق روزانہ اوسطاً 10افراد جہنم واصل ہورہے ہیں چونکہ ایسے حالات دنیا کے کسی ملک /سرزمین پرنہیں ہیں اس لیے ٹرمپ کی مزید بچگانہ ضدیں امریکنوں کو لے ڈوبیں گی۔کابل کے اندرون انٹر کانٹینٹل ہوٹل پر طالبانی حملہ سے دو درجن سے زائد افراد مارے گئے جب کہ آزاد زرائع کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی جو زخمی پڑے ہیں وہ الگ ہیں پھر اس کے چند دن بعد ہی خود کش حملہ نے ایک سو سے کہیں زائد لوگوں کو جہان فانی کی طرف روانہ کردیاجب کہ کوئی دن ہی ایسا نہیں گزرتاجب افغانستان میں ہلاکتیں نہ ہوںبہت ساری تعداد مسلمانوں کی بھی اس میں شہید ہورہی ہے ٹرمپ کی احمقانہ حرکتیں اسے پاکستان میں موجود افغانی مہاجر کیمپوں پر بھی ڈرون حملوں سے ابھی تک باز نہیں رکھ سکیں جس پر پاکستان کی بھی چیخ و پکار اور احتجاج بجا ہے افغانی صدر اشرف غنی کے مطابق افغانستان میں دو درجن کے قریب دہشتگرد جنگجو گروپس مسلسل قتل وغارت گری کررہے ہیں۔
سابق امریکی صدر اوباما نے توافواج کی واپسی کا ٹائم فریم بھی بنا دیا تھا اور پاکستان نے نیٹو افواج کی باحفاظت واپسی کے لیے مکمل امداد کا اعلان بھی کردیا تھامگر کاروباری و ڈھیروں ناجائز منافع کمائوصنعتکار ٹرمپ شاید وہاں سے قیمتی معدنیات کے حصول کے لیے مزید قیام کرنا ضروری خیال کرتے ہیں “ایں خیال است و محال است و جنوں “یہ خواہش تو شاید کبھی پوری نہ ہوسکے گی مگر مزید امریکی ونیٹو افواج کے سپاہی لقمۂ اجل بنتے رہیں گے تا آنکہ ٹرمپ کی ایسی بزدلانہ واحمقانہ پالیسیوں پر امریکہ و اس کے دیگر اتحادی ممالک میں احتجاجی جلسے جلوس شروع ہو کر وائیٹ ہائوس کا گھیرائو ہی نہ شروع ہو جائے جس سے غالباً ناہنجارٹرمپ کو وقت سے قبل ہی صدارتی عہدہ نہ چھوڑنا پڑ جائے افغانستان کی سابقہ کئی صدیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ افغانی آج تک کوئی جنگ نہیں ہارے ۔1842ء میں برطانوی افواج شکست سے دو چار ہوئیں اور افغانستان ان کا مقتل گاہ بن گیا ایک معذور سپاہی کو افغانیوں نے ہاتھ پائوں کاٹ کر ہلاکت سے بچا کر واپس جانے دیا کہ وہ وہاں جا کر دیگر سبھی کو بقیہ فوج کی ہلاکتوں کے قصے سنا سکے۔
پھر روسی چڑھ دوڑے اور ہزاروں فوجی ہلاک کروا کر انہیں واپس سر پر پیر رکھ کر بھاگنا پڑا ۔موجودہ امریکن سفید چمڑی والے سپاہی ناز و نعم میں پلے ہوئے ہیں اور موت کے خوف میں مبتلا بھی۔ اگر انہیں جلد واپس نہ بلالیا گیا تو افغانستان ان سبھی کا قبرستان بن کر رہ جائے گایہ تو پاکستانی کمانڈو مشرف تھا جس نے کئی پاکستانی امریکنوں کو فروخت کر ڈالے تھے وہ دور اب لَد چکا ہے اب افواج پاکستان سول حکومتیں ، عدلیہ ،انتظامیہ اور عوام سبھی ایک پیج پر ہیں ٹرمپ کو مسلم دشمن پالیسی ختم کرنا ہوگی کہ ہم اسے سیاہ و سفید سمجھائے دیتے ہیں ۔روسیوں چینیوں ایرانیوں کی طرف سے مختلف افغانی باغی گروہوں و طالبان سے بات چیت کے کئی مراحل گزر چکے ہیں علاقائی باہمی اتحاد وجود پارہے ہیں عزت سے افواج کو نکال لینے ہی میں امریکیوں کی عافیت ہے کہ انٹرنیٹ کا دور ہے کوئی معمولی واقعہ رونما ہوتے ہی آناً فاناً دور دراز لوگوں تک اطلاع پہنچ جاتی ہے نیٹو اور امریکن افواج کب تک خود تعمیر کردہ زیر زمین خفیہ تہہ خانوں میں مقید رہ سکتے ہیں؟ کہ جنہیں سور ج کی روشنی تک بھی ہفتوں نصیب نہیں ہوتی کاش امریکہ میں موجود سماجی تنظیمیں ٹرمپ کے پاگل پن کے دورہ کو ختم کرنے کے لیے”خصوصی دوائی و علاج” تجویز کریںتاکہ مزید امریکن فوجی خودکشیوں /ہلاکتوںسے بچ رہیں۔
خود افغانی ٹائوٹ حکمران کہہ رہے ہیں کہ اگر نیٹو افواج یہاں سے نکل گئیں تو شاید ہمارا اقتداری محل فوراً ہی چند ہفتوں میں زمین بوس ہوجائے گا۔اس سے صحیح حالات کی نشاند ہی میں کوئی مشکل نہ ہے گلبدین حکمت یار کو امریکنوںنے ہر طرح کی کلیرنس دیکر اس کی خفیہ کمین گاہوں سے نکال کر کابل میں لاکر براجمان کیا ہے تو پھر اب ” اس مجاھد “کواسے استعمال کرنے میں کیا امر معنی ہے ؟کیا اس کو تب استعمال کرنا ہے “جب چڑیاں چگ گئیں سارے کھیت ” طالبان و دیگر دہشت گرد تنظیمو ں کی طرف سے دار لحکومت کابل کو ٹارگٹ بنا لیا گیا ہے اس پر حملوں میں سخت تیزی آگئی ہے خدا خیر کرے اصولاً تو دونوں طرف مسلمان ہی قتل کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں کہ گورے فوجی تو لاکھوں حفاظتوں میں مقید کر رکھے گئے ہیں۔
دوسری طرف افغانستان میں2015سے مسلسل پارلیمنٹ کاانتخاب ملتوی چلا آرہا ہے ۔ہرات کے گورنر اسماعیل خان ہوں یا بلخ کے عطاء محمد وہ مرکزی سرکار کو ” ٹھوٹھا” دکھا رہے ہیں بھارتی دو بلین ڈالر سے کہیں زائد خرچہ کرکے بھی وہاں کچھ نہ کرسکے ہیں صرف را اور سی آئی اے پاکستان کے اندر دہشت گردیاں کرکے “خوشیاں” مناتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ “دشمن مرے خوشی نہ کریے سجنا(انہاں نے )وی مرجانا “آخری ترپ کا پتہ گلبدین بچا ہے کہ شاید اس پر موجودہ حکمران ،طالبان ،دہشت گرد گروپس ،پاکستانی مکمل اتفاق کر لیں اور وہ انتخاب کے ذریعے صحیح قیادت کو منتخب کرواکراقتدار سنبھال دے کہ اس کے علاوہ اور کوئی حل دور دراز تک نظر نہیں آتاکہ دیگر سبھی حربے گھاٹے کے سودے ہیں جس میں سبھی کا نقصان عظیم نظر آتا ہے۔