تحریر : خان فہد خان پاکستان اور امریکہ کے تعلقات قیام پاکستان سے لیکر آج تک تنائو یا جمائوکا شکار رہے ہیں۔تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ نے کسی دور میںبھی پاکستان سے برابری کی سطح پر تعلقات استوار ہی نہیں کیے۔نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے القاعدہ کے خلاف کاروائی کا بہانہ بنا کر افغانستان پر چڑھائی کرنا چاہی تو اِسے اس بات کا احساس تھاکہ پاکستان کی سپورٹ کے بغیر یہ جنگ اسے بہت مہنگی پڑے گی ۔ان دِنوں پاک امریکہ تعلقات شد ید تنائو کے شکار تھے ۔امریکہ پاکستان کے مئی 1998کو کیے جانے والے ایٹمی تجربوں سے خفا تھا کیونکہ اس کی شدید مخالفت ،دھمکیوںاور لالچ کے باوجودبھی پاکستان ایٹمی تجربے کرنے سے نہیں روکاتھا۔ بہرحال امریکہ کو افغان جنگ میں پاکستان کی مدد کی ضرورت شدت سے محسوس ہوئی اور اس نے مجبورا پاکستان سے رویے میں نرمی دکھائی اور دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔امریکہ کو پاکستان سے عسکری امداد کی بجائے زمینی اورفضائی راستوںکی ضرورت تھی جس کیلئے اس نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور افغان جنگ میں تعاون مانگامگر انکار کی صورت میں دھمکیاںبھی دیں۔
اس وقت پاکستان کے سربراہ جنرل پرویز مشرف تھے انہوں نے خدا جانے ڈرتے ہوئے یا لالچ کرتے ہوئے امریکہ کوہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کے ساتھ جنگ میں اتحادی بننے کا اعلان کیا ۔ جس کے بعد ساری دنیا نے دیکھا کہ پاکستان میں جو ہوا اور آج تک جو ہو رہا ہے۔افغان جنگ کا جنون امریکہ کا تھا مگر اس کے نتائج آج تک پاکستان بھگت رہا ہے ۔پرائی لڑائی اپنے گھر میں شروع ہوگئی اور پاکستان کو دہشت گردی کی لعنت نے لپیٹ میں لے لیا۔یاد رہے 2001سے پہلے پاکستان میں دہشت گردی نہ ہونے کے برابر تھی لیکن افغان جنگ میں امریکہ کو تعاون فراہم کرنے پر پاکستان دہشت گردوں کو کھٹکنے لگااور وہ افغانستان چھوڑ کر پاکستان منتقل ہوئے اور یہاں دہشت گردی کی کاروائیاں کرتے رہے۔ 2004میں شروع ہونے والے امریکی ڈرون حملوں نے جہاں پاکستان کی خود مختیاری کو چیلنج کیا وہیں دہشت گردی کی کاروائیوں میں تیزی آئی جس کے بعد صورت حال واضح ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی میں 50ہزار سے زائد سولین اور7ہزار کے قریب سیکورٹی فورسز کے جوانوں کی جانوں کے نظرانے پیش کیے ۔ افغان جنگ کا اتحادی بن کرپاکستان کو سولہ سالوں میں جو معاشی نقصان پہنچا اس کا تو ہم اندازہ ہی لگا سکتے ہیں۔
گزشتہ اقتصادی سروے کے مطابق تقریبا 120ارب ڈالر کا معاشی نقصان پاکستان نے برداشت کیا اورغیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہوگئی جس سے معشیت ڈوبتی گئی۔پاکستان کا امن و سکون برباد ہوگیا معشیت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی یہ ہی نہیںڈرون حملوں نے بھی پاکستانیوں کے جذبات و احساسات کو بھڑکایا اور ان کو ریاست کے خلاف کھڑا ہونے کا موقع دیا ۔ پاکستان نے امریکہ کا ہاتھ تھام کرسولہ سالوں میں ہر لحاظ سے تعاون کیا اوربے شمار قربانیاں دیںاور اس کے بدلے میںکیا دیا جا رہا ہے …………. ؟تو جناب افغان جنگ کو سولہ سال مکمل ہونے کو ہیںاس جنگ میںمدد اور قربانیوں کاصلہ یہ ملاہے کہ امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ دنوں افغانستان سے متعلق اپنی پالیسی میں پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے الزام لگایا کہ پاکستان امریکہ سے امداد لے کر دہشت گردوں کو پناہ دے رہاہے جو آئے روز ہمارے لوگوں کو مار رہے ہیں۔پاکستان کو دہشت گردوں کی مدد جاری رکھنے پر بہت کچھ کھونا پڑسکتا ہے۔دہشت گردوں کے خلاف مطلوبہ کاروائیاں نہ کرنے کی صورت میں اقتصادی پابندی کے ساتھ ساتھ امداد روکنے کی دھمکی بھی دی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی سکیورٹی پر بھی شکوک شبہات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ بھی خیال کرنا چاہیے کہ یہ ایٹمی ہتھیار کبھی ہمارے دشمنوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔
اس بیان کے بعدپوری پاکستانی قوم اور حکمرانوں میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے کہ ہماری لازوال قربانیوں و کامیابیوں کا کیا صلہ ملا مگر اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ امریکی صدر کا حقائق سے منافی بیان کیوں آیا کیا یہ ٹرمپ کی کم عقلی ، نااہلی یا لاشعوری ہے کہ اسے پاکستان کی افغان امن عمل میں عظیم قربانیوں کا علم نہیں ۔اس سے پہلے پاکستان سے ڈومور کے مطالبے ہوئے جو پاکستان کی کاوشوں اور قربانیوں کے اعتراف کے بعد لیکن اس بارپاکستان کو اس کے تعاون اور قربانیوں کے صلہ میں الزامات اور دھمکیاںہی کیوں ملیں۔ تو جناب اصل میں امریکہ افغانستان میں ناکام ہو چکا ہے اور اپنی ناکامی کو چھپانے اور بھارت کو خوش کرنے کیلئے ایسے بیانات جاری کر رہا ہے ۔ٹرمپ کے الزامات پرپاکستان کی جانب سے ردعمل بعد میں آیا سب سے پہلے چین نے ردعمل دیااور ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ دنیا پاکستان کی قربانیوں اور کاوشوں کو تسلیم کرے۔اس کے بعد روس بھی پاکستان کے دفاع میں بولا کہ افغانستان امن عمل پاکستان کا اہم کردار ہے اور پاکستان پر غیر ضروری دباو ڈالنے سے منفی نتائج برآمد ہونگے۔ایران بھی پاکستان کی حمایت میں پیچھے نہیں رہا اور امریکہ کی ناقص حکمت عملی اور طاقت کے بے جا استعمال کو خطہ میں دہشت اور تشدد کے بڑھتے واقعات کا ذمہ دار قرار دیا۔
یہ ہی نہیں عالمی میڈیا نے بھی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی پر ٹرمپ کو اڑے ہاتھوں لیا اورخوب تنقیدکا نشانہ بنایا ہے۔ امریکی صدر کے الزامات کے بعد بھارتی آرمی چیف نے بھی ہمت دکھائی اور پاکستان پر عسکریت پسندوں کی مدد کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے خطہ میں پراکسی جنگ شروع کی ہوئی ہے ۔امریکہ بھارت الزام تراشیوں سے ان کے عزائم واضح ہیں۔امریکہ بھارت کی خواہش پر پاکستان کو دہشت گرد ملک قراردے کر عالمی سطح پرتنہا کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ بھارت کی ایشیاء اجاراہ داری چاہتاہے ۔لیکن وہ شاید یہ بھول گیا ہے کہ ساری دنیا پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کوقدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔اور وہ یہ بھی جانتی ہے کہ سپر پاور کی دعویدار امریکہ افغانستان میں جنگ بری طرح ہارچکا ہے جبکہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کی انسداد دہشت گردی کی کاروائیوںمیں سب سے زیادہ کامیابیاں سمیٹیں۔ٹرمپ بھارت کو تھپکی دے کر اور پاکستان پر الزام لگا کر سوچ رہا تھا کہ عالمی قوتوں اورعالمی میڈیا کی توپوں کا رخ پاکستان پر ہوگا لیکن ایسا ہر گز نہیں ہوا ۔عالمی برادری اور میڈیا کا ردعمل امریکہ کے منہ پر کرارا تھپڑ تھا جس کے بعد امریکہ اور بھارت کو اندازہ ہوجانا چاہیے کہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف قربانیوںاور کاوشوں سے دنیا آشنا ہے اور وہ الزام تراشی سے پاکستان کے کردار کو مشکوک بنا کر اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔