نئی دہلی (جیوڈیسک) بھارت ابھی پاکستان کے ساتھ جنگ کی صورتحال سے پوری طرح نکلا بھی نہیں ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے تجارت کے شعبے میں ترجیحی ملک (جی پی ایس) کی حیثیت کے خاتمے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
امریکا کے اس فیصلے کو بھارت کے لیے ایک بڑا دھچکہ قرار دیا جا رہا ہے تاہم نئی دہلی حکومت نے دعوی کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے سے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات اور بالخصوص باہمی تجارت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔
امریکا نے پلوامہ حملے اور پھر پاکستان کے علاقے بالا کوٹ میں جیش محمد کے مبینہ ٹھکانوں پر بھارتی فضائی حملے کے معاملات پر بھارت کے موقف کی تائید کی تھی، جس پر نئی دہلی نے مسرت کا اظہار کیا تھا لیکن جی پی ایس کی حیثیت کو ختم کرنے کے تازہ فیصلے سے بھارت کو بڑا دھچکہ لگا ہے۔ سن 2017 میں امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارت کے خلاف اسے سب سے بڑا قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
امریکی صدر نے کانگریس کو ارسال کردہ ایک خط میں آگاہ کیا ہے، میں یہ قدم اس لیے اٹھا رہا ہوں کیونکہ امریکا اور بھارت کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ نئی دہلی انتظامیہ نے واشنگٹن انتظامیہ کو یہ یقین دہانی نہیں کرائی ہے کہ وہ اپنی مارکیٹ تک منصفانہ اور مناسب رسائی دے گی۔ ٹرمپ کے اس خط کے بعد امریکا کے تجارت سے متعلق دفتر نے ایک بیان میں وضاحت پیش کی کہ واشنگٹن جی پی ایس کے تحت بھارت اور ترکی کو دی گئی ترجیحی حیثیت ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے کیونکہ دونوں ممالک اس حیثیت کے لیے معیارات پر پورا نہیں اترتے۔ بیان کے مطابق بھارت یہ یقین دہانی کرانے میں ناکام رہا ہے کہ وہ امریکا کو اپنی مارکیٹ تک رسائی دے گا۔ بھارت نے کئی تجارتی رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں جن کی وجہ سے امریکا کی تجارت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔
دوسری جانب بھارتی حکومت نے امید ظاہر کی ہے کہ اس امریکی فیصلے سے ملکی معیشت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ بھارت کے کامرس سیکریٹری انوپ وادھوا نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، جی پی ایس حیثیت ختم کرنے سے امریکا کو کی جانے والی بھارتی برآمدات پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ ہمارے امریکا سے بہت گہرے تعلقات ہیں۔ امریکا آئندہ ساٹھ دنوں کے اندر جی پی ایس کی حیثیت ختم کر دے گا لیکن اس کے باوجود، واشنگٹن کے ساتھ ہمارے تعلقات بنے رہیں گے اور ہم بات چیت جاری رکھیں گے۔
وادھوا کا مزید کہنا تھا، امریکا نے محصول میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا جسے پورا نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کو اپنی ترقی اور عوامی بہبود کے لیے چوکنا رہنا ہوگا۔ ہماری کوشش ہے کہ عوامی مفادات کو نقصان پہنچائے بغیر سستی قیمت کے توازن کو برقرار رکھا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت تمام متعلقہ امور بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے عہد بند ہے اور انہیں اتفاق رائے سے سلجھا لیا جائے گا۔ کامرس سیکریٹری نے یہ بھی بتایا کہ بھارت میں کسٹم ڈیوٹی اوسطا سات اعشاریہ چھ فیصد ہے جو دیگر ترقی پذیر ملکوں میں لاگو کسٹم ڈیوٹی کے برابر ہی ہے۔
امریکا کے تازہ ترین فیصلے پر بھارتی اپوزیشن جماعتو ں نے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ کانگریس پارٹی نے کہا کہ یہ بھارت کے خلاف امریکا کی تجارتی جنگ ہے۔ کانگریس نے جی پی ایس ختم کیے جانے کو مودی حکومت کی ایک اور سفارتی ناکامی قرار دیا۔ کانگریس کے ترجمان اور سابق وفاقی وزیر منیش تیواری نے ٹوئیٹ کر کے کہا، ہر معانقہ کام نہیں کرتا مودی جی! ٹرمپ نے بھارت کے ساتھ تجارتی جنگ شروع کر دی ہے۔ پہلے او آئی سی میں ناکامی اور اب یہ۔ بلا شبہ، یہ نہایت شاندار سفارت کاری ہے۔
امریکا نے جی پی ایس کا آغاز سن 1976میں ترقی پذیر ملکو ں میں اقتصادی ترقی میں اضافے کے لیے کیا تھا۔ اس کے تحت چند اشیا کو ڈیوٹی فری یا معمولی محصولات پر درآمد کی اجازت دی جاتی ہے۔ ابھی تک تقریبا 129ملکوں کی لگ بھگ 4800 اشیا کو جی پی ایس کے تحت فائدہ مل رہا ہے۔ امریکا اور برطانیہ کے علاوہ یورپی یونین بھی جی پی ایس کے تحت کچھ چیزیں ترقی پذیر ملکوں سے درآمد کرتے ہیں۔ اس کا ایک اور مقصد ترقی پذیر ملکوں کی معیشت کو بہتر بنانا اور غربت ختم کرنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔
امریکا کی طرف سے ترجیحی تجارت کی سہولت کی وجہ سے بھارت ہر سال امریکا کو پانچ ارب ساٹھ کروڑ کی مصنوعات بغیر محصولات کے برآمد کرتا ہے، جس سے اسے سالانہ انیس کروڑ ڈالر کا منافع حاصل ہوتا ہے۔ بھارت امریکا کے ساتھ ٹریڈ سرپلس والا گیارہواں سب سے بڑا ملک بھی ہے۔ سن 2017 اور سن 2018 میں بھارت کا امریکا کے ساتھ تجارتی سرپلس اکیس ارب ڈالر کے قریب تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ بھارت امریکی مصنوعات پر کافی زیادہ ٹیکس وصول کرتا ہے۔ انہو ں نے یہ بھی کہا تھا کہ جب امریکا بھارت کو موٹر سائیکل بھیجتا ہے، تو اس پر ایک سو فیصد محصول لگایا جاتا ہے لیکن جب بھارت امریکا موٹر سائیکل برآمد کرتا ہے تو امریکا کوئی محصول عائد نہیں کرتا۔
امریکی صدر کا یہ فیصلہ ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب بھارت میں عام انتخابات ہونے والے ہیں اور یہ وزیراعظم نریندر مودی کے لیے مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے۔ وہ دوبارہ منتخب ہونے کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ ملک کی اقتصادی ترقی کے سلسلے میں اپوزیشن انتخابی ماحول میں کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہی۔