امریکہ اور یورپ کی لبرل و سیکولر حقیقت

Europe Society

Europe Society

تحریر : محمد نواز بشیر
پاکستان میں جب بھی شرم و حیا اور اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی بات کی جاتی ہے تو لبرل و سیکولر لابی کی جانب سے بالعموم اعتراض نما طعنہ دیا جاتا ہے کہ مسئلہ شرم و حیا ،لباس کا نہیں، مسئلہ گندی نظر اور گندی سوچ کا ہے جو عورت کو دیکھتے ہی ابنارمل ہوجاتی ہے ،اگلی ہی سانس میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ سب معاشرے کی جکڑبندی کی وجہ سے ہے کیونکہ عورت پر سے جب پابندیاں ختم ہوں گی تو آزادانہ میل جول میں اضافہ ہوگا اس طرح پیمانے بدلتے جائیں گے اور نظر کی ہوس کیا جنس کی کشش بھی ختم ہوتی چلی جائے گی یہ ہے لبرل و سیکولر یورپ اور امریکہ کی حقیقت، میں نے سوچا کیوں نہ یورپ اور امریکہ کے معاشروں کا جائزہ لیا جائے جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان ممالک کے معاشرے لبرل اورسیکولر ہیں، کہا جاتا ہے انہی ممالک کے معاشروں میں خواتین کا احترام اور بچوں کے حقوق کا خیال بھی رکھا جاتا ہے اور کسی پابندی کے نہ ہونے کی وجہ سے اگرکوئی کسی کو گندی سوچ اور گندی نظر سے دیکھ بھی لے تو جذبات مشتعل نہیں ہوتے پھر میں نے سوچا کہ ہو سکتا ہے کہ جہاں سے میں نے ریسرچ کی ہے یا جن لوگوں سے میں نے پوچھا ہے وہ بھی مغرب سے نفرت کے جذبے سے مغلوب ہو کر کچھ غلط سلط ہی بتا رہے ہوں۔ میں بتا تا چلوں کہ پاکستان میں سیکولر لابی کے دو بڑے صحافتی نام ڈان اور ٹربیون ہیں مگر پھر ذہن میں خیال آیا کہ یہ دونوں صحافتی ادارے ہیں تو پاکستانی نا، میں نے سوچا کیوں نہ کسی غیر ملکی صحافتی ادارے سمیت ہیومین رائیٹس واچHuman Rights Watchکی رپورٹ کا مطالعہ بھی کر لیا جائے، تو آیئے BBC, British Broadcasting Corporation سمیت ہیومین رائیٹس واچ کی سروے رپورٹس میں سے چند جھلکیاں ملا خطہ کرتے ہیں۔

سب سے پہلے یورپ کا مجموعی ذکر 2014 میں یورپی یونین کے بنیادی حقوق کے ادارے نے ایک سروے کیا اس سروے رپورٹ کے مطابق یورپی یونین میں شامل ممالک کی تقریباً ایک تہائی خواتین 15 برس کی عمرمیں جسمانی اور کچھ جنسی تشدد کا شکار ہوئی، یہ تعداد چھ کروڑ 20 لاکھ کے لگ بھگ بنتی ہے، سروے رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا کہ اس موضوع پر لیا جانے والا یہ سب سے بڑا جائزہ ہے، اس سروے کے لیے 42 ہزار خواتین کے انٹرویو کیے گئے رواروی میں آپ نے یہ اعداد و شمار پڑھ لیئے ہوں گے مگر ذرا رکیئے اور پھر پڑھیے گا کہ یہ کل آبادی کی ایک تہائی خواتین کی بات ہو رہی ہے جی ہاں ایک تہائی، مبلغ 6 کروڑ 20 لاکھ، اور یہ وہاں ہو رہا ہے جہاں شراب شباب کے علاوہ سب ارزاں ہیں ، یہ پہلو بھی ذہن میں رہے کہ یورپ میں آبادی کی ایک تہائی خواتین جبر،ظلم او رزیادتی کانشانہ بھی بنتی ہیں، یورپ کے بعد امریکہ کی لبرل اور سیکولر پا لیسی پر ایک نظر، عورتوں کے حقوق کی ایک عالمی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ایک منٹ کے دوران 25 لوگوں کو جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اسی سروے رپورٹ کے مطابق 12 ماہ کے عرصے کے دوران 10 لاکھ عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات اور، 60 لاکھ سے زائد مرد اور خواتین کا تعاقب کیا گیا جبکہ 1 لاکھ 20 ہزار مرد و خواتین نے اپنے ہی ساتھی کی جانب سے جنسی زیادتی، جسمانی تشدد یا تعاقب کیے جانے کی شکایت کی۔ امریکہ میں ایک اور سروے رپورٹ کے مطابق ہر 5 میں سے ایک عورت زندگی میں کبھی نہ کبھی جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہے اسی طرح امریکہ میں تعلیمی درسگاہوں کی ایک سروے رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ امریکہ میں یونیورسٹی تعلیم کے دوران ہر 5 میں سے ایک طالبہ جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے ،یہاں ایک بات دلچسپ ہے اور جس کا پاکستان کے تناظر میں شکوہ کیا جاتا ہے کہ خواتین خوف کے ماحول کی وجہ سے اپنا کیس رپورٹ ہی نہیں کرواتی، اس کے علاوہ یونیورسٹی سروے رپورٹ میں لکھا ہے کہ جنسی تشدد کے واقعات کوامریکہ میں بہت کم رپورٹ کیا جاتا ہے اسی وجہ سے کالج اور یونیورسٹی میں جنسی تشدد کا شکار ہونے والی صرف 12 فیصد خواتین کا مقدمہ پولیس تک پہنچ پاتا ہے ،یہ ہے امریکہ اوریورپ کی حقیقت جہاں عورتوں کے ساتھ کس قدر ظلم اور جنسی تشدد کیا جاتا ہے۔

Europe

Europe

ہمارے ہاںلوگوں کو یورپ کے معاشروں کی مثال دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ امریکہ سمیت دیگر یورپی ممالک میں عورتوںکو کوئی بری نظر سے تو کیا آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا ، یورپ میںعورتوں کے ساتھ کس قدرجنسی تشدد اور جبر ہوتا ہے، اس کی مثال تو رپورٹس کی صورت میں آ ہی گئی ہے۔ مگر انہی ممالک کی ایک اور رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر 7 میں سے 1 مرد بھی اپنے ساتھی کے ہاتھوں شدید نوعیت کے جنسی و جسمانی تشدد کا شکار ہوتا ہے اور 25 فیصد مردوں کو تو 10 سال سے کم عمر میں ہی جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔انسانی حقوق کے ایک ادارے نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ امریکی فوج کو ہر جگہ ڈسپلنڈ ادارہ سمجھا جاتا ہے مگر اس کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں ہے2006 سے امریکی فوج میں جنسی جرائم میں 30 فیصد اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں میں 43 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2003 میں ریٹائرڈ فوجی عورتوں سے انٹرویو پر مبنی سروے میں انکشاف کیا گیا کہ 500 میں سے کوئی 30 فیصد عورتوں کا دوران ملازمت ریپ ہوا جی ریپ ہوا۔ امریکی وزارت دفاع کے سال 2009 میں ہونے والے سروے کے مطابق فوج کے اندر ہونے والے جنسی زیادتی کے کوئی 90 فیصد واقعات رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے 2009 میں برطانوی خیراتی ادارے چائلڈ لائن کے مطابق ان کے پاس ایسی شکایات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جن میں بچوں نے خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

چائلڈ لائن ادارے کے مطابق 2004 سے 2009 کے درمیان موصول ہونے والی شکایات کی تعداد میں مردوں کی جانب سے بچوں کو ہراساں کرنے کے واقعات کے مقابلے میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے صرف 2008 میں 16 ہزار سے زائد بچوں نے چائلڈ لائن ادارے کی ہیلپ لائن پر فون کر کے 2 ہزار 142 خواتین کو اس عمل کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اب یہ تعداد 2004 کے مقابلے میں 132 فیصد سے بھی زائدہے۔ آپ خودتصور کریں کہ امریکہ اور یورپ میں عورت کوایسی آزادی ملی ہے کہ مرد ایک طرف خواتین بھی بچوں کو اپنی مشق ستم کا نشانہ بناتی ہیں، اب تو امریکہ کے سابق صدر براک اوباما بھی یہ بات تسلیم کر چکے ہیں کہ جب سٹینفورڈ یونیورسٹی میں نشے میں مدہوش طالبہ کا ریپ کیا گیا توسابق امریکی صدر نے کہا کہ یونیورسٹی کیمپسز کے اندر کسی کو جنسی طور پر ہراساں کرنا دراصل انسانیت کی توہین ہے، اور امریکہ کا معاشرہ اب بھی جنسی زیادتی کی اتنی شدت سے مذمت نہیں کرتا۔امریکہ میںجنسی حملوں سے روک تھام کے شعبہ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر کے وائیٹ لی کے مطابق کسی بھی عورت کے لیے ریپ رپورٹ کرنا انسانی اور جذباتی سطح پر انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے مطلب انسانی و جذباتی سطح یکساں ہوتی ہے اور اس میں امریکہ و پاکستان میںکوئی فرق نہیں ہے۔

بنیادی طور یہ بھی شرم والا معاملہ ہے جسے سیکولر لابی کی طرف سے طعن و تشنیع فن میں اڑا دیا جاتا ہے ،امریکہ او ر یورپ کی تصویر تو سامنے آ گئی ہے، اس پر مزید کیا لکھا جائے اب تو الفاظ بھی شرمانے لگے ہیں یہ اور بات ہے کہ دیسی لبرلز کے ذہنوں کو کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی اور شرم تم کو مگر نہیں آتی کا مصرع بھی ان کے سامنے اپنے معنی کھو چکا ہے جس میں عورت تک پہنچنے کی آزادی ہو، ان رپورٹس کی روشنی میں آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ یہ کہنا کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے ،اب فیصلہ آپ خود کریںکہ کسی این جی اوز کا حصہ بن کر اس جدوجہد کا حصہ بنا جائے کہ پاکستانی معاشرہ بھی یورپ کی نظیر پیش کرنے لگے یا تنگ نظری کا طعنہ قبول کرکے معاشرے کو اسلامی تعلیمات کے مطابق شرم و حیا کا گہوارہ بنانے کی جدوجہد جاری رکھی جائے۔

Nawaz Bashir

Nawaz Bashir

تحریر : محمد نواز بشیر
nawaz.fm51@yahoo.com