میں نے کسی جگہ امریکہ کے ایک ریٹائر سرکاری افسر کے بارے میں ایک واقعہ پڑھا تھا اس افسر کو وائٹ ہاؤس سے فون آیا کہ فلاں دن صدر آپ سے ملنا چاہتے ہیں اس افسر نے فوراً معذرت کر لی فون کرنے والے نے وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا ’میں اس دن اپنی پوتی کے ساتھ چڑیا گھر جا رہا ہوں یہ جواب سن کر فون کرنے والے نے ترش لہجے میں کہا آپ چڑیا گھر کو صدر پر فوقیت دے رہے ہیں ریٹائر افسر نے نرمی سے جواب دیا نہیں میں اپنی پوتی کی خوشی کو صدر پر فوقیت دے رہا ہوں فون کرنے والے نے وضاحت چاہی تو ریٹائر افسر نے کہا مجھے یقین ہے میں جوں ہی وہائٹ ہاؤس سے باہر نکلوں گا تو صدر میرا نام اور میری شکل تک بھول جائے گا جبکہ میری پوتی اس سیر کو پوری زندگی یاد رکھے گی میں گھاٹے کا سودا کیوں کروں؟ میں یہ وقت اس پوتی کو کیوں نہ دوں جو اس دن اس وقت میری شکل اور میرے نام کو پوری زندگی یاد رکھے گی جو مجھ سے محبت کرتی ہے جو اس دن کیلئے گھڑیاں گن رہی ہے میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تو میں نے کرسی کے ساتھ ٹیک لگائی اور آنکھیں بند کرکے دیر تک سوچتا رہا ہم میں سے 99 فیصد لوگ زندگی بھر گھاٹے کا سودا کرتے ہیں ہم لوگ ہمیشہ ان لوگوں کو اپنی زندگی کے قیمتی ترین لمحات دے دیتے ہیں جن کی نظر میں ہماری کوئی اوقات ہماری کوئی اہمیت نہیں ہوتی جن کیلئے ہم ہوں یا نہ ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا جو ہماری غیر موجودگی میں ہمارے جیسے کسی دوسرے شخص سے کام چلا لیتے ہیں میں نے سوچا ہم اپنے سنگدل باس کو ہمیشہ اپنی اس بیوی پر فوقیت دیتے ہیں جو ہمارے لئے دروازہ کھولنے ہمیں گرم کھانا کھلانے کے لئے دو دو بجے تک جاگتی رہتی ہے ہم اپنے بے وفا پیشے کو اپنے ان بچوں پر فوقیت دیتے ہیں جو مہینہ مہینہ ہمارے لمس ہماری شفقت اور ہماری آواز کو ترستے ہیں جو ہمیں صرف البموں اور تصویروں میں دیکھتے ہیں جو ہمیں یاد کرتے کرتے بڑے ہوجاتے ہیں اور جو ہمارا انتظار کر تے کرتے جوان ہو جاتے ہیں لیکن انہیں ہمارا قرب نصیب نہیں ہوتا ہم انہیں ان کا جائز وقت نہیں دیتے میں نے سوچا یقینا ہم سب گھاٹے کے سوداگر ہیں