تحریر : طارق حسین بٹ شان امریکہ کی نظریں سی پیک پر جمی ہوئی ہیں اور وہ اسے ہر حال میں منتازعہ بنانے پر تلا ہوا ہے کیونکہ سی پیک کا بن جانا اس کی چوہدراہٹ کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتا ہے۔شروع شروع میں امریکی تحفظات اور یلغار قدرے سست تھی لیکن اس وقت اس کی سوچ میں تندی کے آثار ہیں۔ امریکہ کا تازہ ترین بیان کہ سی پیک متنازع علاقوں سے گزرتا ہے پاکستان اور چین کیلئے ٹائم بم کی حیثیت رکھتا ہے۔اس بیان سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ امریکہ سی پیک کو پایہ تکمیل تک پہنچنے نہیں دیگا۔یہی وہ موقف ہے جس کا راگ بھارت کافی عرصہ سے الاپ رہا ہے۔ امریکہ اور بھارت کا گٹھ جوڑ سی پیک کو حقیقت بننے نہیںدیگا کیونکہ اس سے انھیں معاشی طور پر شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس سے چینی سپر میسی کا سکہ پوری دنیا پر قائم ہوسکتا ہے ۔ جدید دنیا میں اقتصادی مضبوطی انتہائی اہمیت کی حامل ہے لہذا کوئی بھی حکومت اقتصادی مفادات کو نظر انداز کرکے اپنا لوہا نہیں منوا سکتی۔امریکی صدر ڈولنڈ ٹرمپ کے جارحانہ اندازِ سیاست سے پوری دنیا آگاہ ہے۔وہ ضدی ہونے کے ساتھ ساتھ بھارتی قیادت کے قریب تصور ہوتے ہیں جس کا کھلا اظہار بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے دورہِ امریکہ میں دیکھا گیا تھا۔دونوں میں قدرِ مشترک پاک چین دشمنی ہے۔
پاکستان کو چین کاانتہائی قابلِ اعتماد دوست سمجھا جاتا ہے کیونکہ پاکستان آزمائش کی گھڑیوں میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہو جاتا ہے ۔گزرے وقتوں میں چین قدرے خاموشی کی چادر اوڑھے ہوئے تھا لیکن حالیہ برسوں میں پاکستان کے خلاف ہر وار کو چین نے انتہائی دانشمندی سے بے اثر کیا ہے۔سیکورٹی کونسل میں دھشت گردی کا ایشو ہو یا پھر بھارت کی جانب سے پانی بند کرنے کا مسئلہ ہو چین نے پاکستانی موقف کو دو ٹوک الفاظ میں بیان کر کے سچے دوست ہونے کا ثبوت دیا ہے لہذا جب چین پر دبائوبڑھانے کا فیصلہ ہوگا تو پاکستان خود بخود امریکی لپیٹ میں آ جائیگا ۔ افغانی مسئلے کی وجہ سے امریکہ پاکستان سے ناراض ہے اور یہی وجہ ہے کہ وزیرخا رجہ خواجہ آصف کو ان کے حالیہ دور ہِ امریکہ میں ٹف ٹائم دیا گیا۔
امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان سی پیک سے تا تعلقی کا اعلان کرے لیکن پاکستان کیلئے ایسا کرنا خود کشی کے مترادف ہے لہذا پاکستان ایسا کبھی نہیں کریگا چاہے اسے بھاری نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے ۔ امریکہ کا متنازع علاقوں کے ساتھ سی پیک کو جوڑنا اس بات کی دلالت کر رہا ہے کہ امریکہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتاہے۔امریکی فیصلے سے چین کیلئے معاشی مشکلات بڑھنے کے خدشات ہیں لیکن قومیں دھمکیوں سے نہیں عزتِ نفس سے زندہ رہتی ہیں اور چین کوئی معمولی ریاست نہیں بلکہ دنیا کی ابھرتی ہوئی سپر پاور ہے لہذا وہ امریکی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہو گی۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سی پیک کا رک جانا چینی خوابوں کو تہس نہس کرنے کے متردف ہو گا جبکہ پاکستان کیلئے امریکی ناراضگی پر اس کی بقا کا سوال کھڑا ہو جائیگا لہذا اب ڈرون حملوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کو از سرِ نو تیز کیا جا ئیگا تا کہ پاکستان کو اپنا گھر بچانے کی فکر لا حق ہو جائے ۔بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی شر انگیزیاں امریکی اشیر واد اورسر پرستی سے خطرناک رخ اختیار کر سکتی ہیں ۔ ایک زمانہ تھا کہ امریکہ نے عالمی نقشے پر بلوچستان کو علیحدہ ملک دکھایا تھا لیکن پاک فوج کی لازوال قربانیوں نے امریکی آزوئوں کا خون کر دیا ۔پاک فوج نے اپنے لہو کی سرخی سے پاکستان کی سرحدوں کو جو مضبو طی عطا کی ہے وہی امریکی عزائم کی ناکامی کا بنیادی پتھر ہے ۔،۔ پاکستان اس وقت مشرقی اور مغربی سرحدوں سے دشمنوں کی زد میں ہے۔
اس کی فوج کیلئے دشمن سے دونوں محاذوں پر لڑنا نتہائی مشکل ہو جائیگا۔ہماری فوج بہادر ہے لیکن جب دشمن نئے نئے محاذ کھول کر حملہ آور ہو گا تو پھر بہادر فوج کیلئے دشمن کو روکنا آسان نہیں ہو گا ۔ امریکی ، افغانی اور بھارتی گٹھ جوڑ سے نپٹنا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ پاکستان اس وقت سیاسی عدمِ استحکام اور انتشار کا شکار ہے اور سیاسی عدمِ استحکام میں معجزے سر زد نہیں ہوتے ۔٢٨ جولائی کو عدالتی فیصلے کے بعد قوم دو واضح کیمپوں میں تقسیم ہو چکی ہے جس کا ادراک امریکہ اور بھارت کو ہے۔انھیں خبر ہے اس وقت پاکستان کسی مقبول لیڈر شپ کے بغیر ہے جبکہ اقتدار کی جنگ اپنے پورے عروج پر ہے لہذاپاکستان کے خلاف دبائو بڑھایا جا رہا ہے۔میاں نواز شریف کی فیملی عدالتی کاروائیوں میں الجھی ہو ئی ہے۔ ان کیلئے عرصہِ حیات تنگ کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے میاں محمد نواز شریف کی آواز دن بدن تلخ ہو تی جا رہی ہے۔ ایک لکیر کھینچ دی گئی ہے جس کی ایک جانب میاں محمد نواز شریف اور ان کی جماعت کھڑی ہے جبکہ اس لکیر کی دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ اور ان کے حواری کھڑے ہیں جو شریف فیملی کو سیاست سے بے دخل کرنے کیلئے بے چین ہیں ۔اس طرح کی کوششیں ماضی میں بھٹو خاندان کے خلاف بھی کی گئی تھیں لیکن کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو ئی تھیں کیونکہ عوام اپنی محبوب لیڈر شپ کے ساتھ جب ایک دفعہ جڑھ جاتے ہیں تو پھر پیچھے نہیں ہٹتے ۔پی پی پی کے خلاف ظلم و جور کا جس سفاکانہ انداز میں بازار گرم کیا تھا اس پر آج بھی انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے لیکن جن کو وار کرنا ہوتا ہے وہ باز کہاں آتے ہیں۔
بہر حال پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد یہ سمجھتی ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی نا اہلی کا فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کے دبائو میں کیا گیا ہے۔اگر میاں محمد نواز شریف کو کرپشن کے الزامات پر سزا سنائی ہوجاتی تو شائد یہ تاثر کمزور ہوجا تا لیکن اقامہ پر انھیں نا اہل کرنے والے فیصلہ نے عوا م کے اذہان میں شکوک و شبہات پیدا کر دئے ہیں ۔ مریم نواز کی تقاریر اور میاں محمد نواز شریف کا بیانیہ اسی سوچ کے گرد گھومتا ہے کہ انھیں انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لہذا وہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو براہِ راست نشانہ بنا رہے ہیں اور عوام کو آئین و قانون کی حکمرانی کا نیا خواب دکھا رہے ہیں ۔عدل و انصاف کی ایک نئی سحر کو حقیقت بنانے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں۔کیا ایسا ہو سکے گا اس پر کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ میاں نواز شریف کا ماضی اتنا شاندار نہیں ہے ۔لیکن اتنا ضرور ہے کہ ان کے بیانیہ میں دم ہے کیونکہ ماضی میں سیاسی قائدین کے ساتھ نا انصا فیا ں روا رکھی گئی ہیں اور انھیں بزور اقتدار سے محروم کیا گیاہے۔میاں محمد نواز شریف کے علاوہ چار سو دوسرے افرا د بھی پاناما لیکس میں شامل ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک کے خلاف بھی کوئی مقدمہ دائر نہیں ہوا ؟ جب مقصد کسی کو پکڑنا تھا ہی نہیں تھا توان پر مقدمہ کیوں دائر ہو گا؟ مقصد تو میاں محمد نواز شریف کونا اہل قرار دینا تھا لہذا وہ حاصل کر لیا گیا۔
جب پاکستان معاشی طور پر توانا ہونے لگا تھا، اسٹاک ایکسیچ نئی بلندیوں کو چھونے لگا تھا ،دہشت گردی پر قابو پایا جا رہا تھا ، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو رہا تھا اور ملک میں امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہو رہی تھی تو پی ٹی آئی نے دھرنا سیات کا آغاز کیا جس کیلئے کچھ قائدین کینیڈا سے امپورٹ کئے گئے تا کہ ملک میں انتشار کے شعلوں کو ہوا دی جا سکے۔پی پی پی اورکچھ جماعتوں نے اپوزیشن کی دھرنا سیات کے خلاف کھل کر حکومت کاساتھ دیا جس سے دھرنا اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہو گیا ۔کینیڈا والے کینیڈا سدھارے اور پی ٹی آئی کو اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑا جس سے اس کی سیاسی پوزیشن انتہائی کمزور ہو گئی۔یہی وہ وقت تھا جب پانا لیکس کا ہوا چھوڑ ا گیا جس کی بنیاد پر میاں محمد نواز شریف کو اقتدار سے چلتا کیا گیا لیکن عوام ا کی اکثریت انھیں اب بھی بے گناہ سمجھی ہے ۔ انتقامی سیاست کے سائے گہرے ہو تے جا رہے ہیںجس نے ٹکرائو کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے لیکن سارے فریق ایک حد سے آگے جانے کیلئے تیار نہیں ہیںلیکن اس کے باوجود ٹکرائو کو واضح محسوس کیا جا سکتا ہے۔امریکی اور بھارتی گٹھ جوڑ سے نپٹنے کیلئے جمہو ریت کی مضبوطی ہی ہماری نجات کی علامت ہے لہذا ہمیں اس علامت کے ساتھ جڑھ جانا چائیے تا کہ دشمن نامراد ٹھہرے۔کیا ہم با لغ نظری کا مظاہرہ کے عالمی سازش کو ناکام بنائیں گے یا باہم دست و گریبان ہو کر قومی یکجہتی کو نقصان پہنچائییں گے۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال