تحریر : سجاد گل ہاں بھائی بغیر ٹکٹ ….جی بھائی جان کرایہ دے دیں ….میںنے 1 -Cکے کنڈیٹرکو20 والا کڑکڑکرتانوٹ تھمادیا۔میرے ساتھ بیٹھے تقریباً70/65سال کے ایک بزرگ نے بھی اُسے ایک دس روپے والا نوٹ اورپانچ روپے والا سکہ دیا۔میں نے نوجوان کنڈیٹرسے تقاضاکیاکہ بقایاپیسے ۔میرے ساتھ بیٹھے بزرگ نے بھی بھاری آوازمیں کہامیراایک روپیہ بھی دے دیں۔کنڈیٹرنے مجھے پانچ والا سکہ دیتے ہوئے کہابھائی کریہ 15روپے ہے ۔چچاجی آپ نے مجھے 15روپے ہی دیئے ہیں اورآپ کے کونسے بقایا؟چچاجی نے کہابیٹامیں ہرروز سفر کتاہوں اورکرایہ 14روپے ہے ۔چچاجی کی صداقت کی گواہی میں بھی دے سکتاتھاکہ میں نے بھی جاتے ہوئے کرایہ 14روپے ہی دیاتھاجبکہ واپسی پریہ خبرِدردآشوب سننے کوملی کہ کرایہ 15روپے ہے میں نے اس موقع پرخاموشی ہی بہترسمجھی مگرچچاجی تھے کہ چپ ہونے کانام نہیں لے رہے تھے …..میں ہرروز14روپے کرایہ دیتاہوںمیں اخبارپڑھتاہوTVدیکھتاہوں اس ہفتے نہ ڈیزل کے ریٹ بڑھے ہیں اورنہ ہی پٹرول اور سی این جی پرمہنگائی کابم گرا ہے۔
اپناراج بنایاہواہے ہرآدمی نے،15روپے کرایہ ہے ،حرام کھاتے ہو،،حرام خور کہیں کے ،،گاڑی کاکنڈیٹرہواورچپ ….توبہ توبہ …..ارے چچابحث کیوں کررہے ہیں اگرکرایہ نہیں ہوتاگاڑی میں بیٹھاہی نہ کریں ۔اُترجائیں …..استاد جی گڈی روکو….چچاغصے میںذرااتارکے دیکھ تیرے باپ کی گاڑی ہے کیا۔اپنی اوقات میں رہو۔ادھرسے ایک چماٹ دُوں گاتوگاڑی سے باہرجاکے گروگے ۔کنڈیکٹرنے یہ کام پریکٹیکل کرکے دیکھادیا۔چچاکاہاتھ پکڑاکرکہاچلواُترعزت راس نہیں تمہیں ….یہ منظرمجھ سے دیکھانہ گیامیں نے کنڈیکٹرکوکہابھائی چھوڑیں ان کویہ توبزرگ آدمی ہیں اگرانھوں نے کچھ غلط کہہ دیاہے توآپ برداشت کریں ۔کنڈیکٹرنے مجھے بھی جھاڑدیا۔تم چپ رہوتمہیں تقریرکرنے کی کوئی ضرورت نہیں پچھلی سیٹ سے دوتین لوگ بول پڑے ۔عجیب آدمی ہے یہ، ہرایک سے بدتمیزی کررہاہے ایک توکرایہ زیادہ لے رہاہے اوردوسرابدمعاشی کئے جارہاہے ۔اب اُس نے خاموشی میں ہی خیرسمجھی مگرچچانے ایک انتہائی پرسوزجملہ کہا،،ارے کوئی قانون نہیں ،،کوئی سسٹم نہیں ۔یہ ملک امریکہ کے ہی حوالے کردیناچاہئے ،اللہ اکبر،میں نے یہ جملہ سناتومیراسرچکراساگیا۔میں ان بزرگ کے ان بادردالفاظ کوکیانام دُوں ۔یہ ان کے دل کی آواز تھی۔
یہ اُن کاغصہ تھا۔یاحقیقت پرمبنی ایک سوچ ۔خیرعالم الغیب تواللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے میں کیاقیاس آرائی کروں مگراس جملے پرتھوڑاساتبصرہ کرنے کودل کررہاتھااسی لئے آج قلم کواس رُخ پرلے چلا۔سوال یہ ہے کہ اگریہاں امریکہ آجائے تو کیاہم خوشحال ہوجائیں گے، ہماری حالت درست ہوجائے گی ،ہم ترقی کی راہ پرگامزن ہوجائیں گے ،ہمارے ملک سے غربت کاخاتمہ ہوجائے گا،بنیادی سہولتیں علاج ،بجلی،پانی ،گیس ٹرانسپورٹ کے مسائل حل ہوجائیں گے ؟شایدقائرین کے دل میں اسکا جواب ….ہاںجی….کی صورت میں آیاہومگرمیں اس بے تکی منطق کے لئے بالکل تیارنہیں۔تھوڑی دیرکے لئے فرض بھی کرلیاجائے کے واقعی ایسا ہوجائے گا۔مگرتصورکادوسرارُخ سے ہمارے بھولے مسلمان نا آشناہیں ۔کہ 1480ء تک دنیامیں ایساکوئی ملک دریافت نہیں ہواتھاجسکانام امریکہ ہو۔1451ء میں اٹلی میں پیداہونے والے کرسٹوفرکولمبس نے امریکہ دریافت کیاتھا۔اس وقت دنیائے عیسائیت کی بھاگ دوڑ(حکومت )بادشاہ فرڈی نینڈاورملکہ ازبیلاکے ہاتھ میں تھی ۔کرسٹوفرکولمبس نے اپنانظریہ دریافت اورمقصد کس طرح بادشاہ فرڈی نینڈاورملکہ ازبیلاکے سامنے رکھایہ میں اپنے قائرین کواُنہی کی کتاب کے الفاظ اورحوالے سے بتاناچاہوںگا۔
Queen Isabella
7اپریل 1492ء کی صبح ملکہ ازبیلانے کولمبس کوملاقات کے لئے طلب کیاتووہ اپنے شوہرفرڈی نینڈکی نسبت کولمبس سے زیادہ گرم جوشی اورخوش اخلاقی سے پیش آئی وہ اپنے شاہانہ جاہ وجلال کے ساتھ قیمتی آرام دہ کرسی پراپنے شوہرفرڈی نینڈکے پاس بیٹھی ہوئی تھی جبکہ فرڈی نینڈقدرے لاتعلق اوربے زار نظرآتاتھا۔ملکہ کے ریشم جیسے سنہرے بال گہری نیلی آنکھیں اورمدھم آواز ماحول کوطلسماتی بنائے ہوئے تھی اور وہ اپنے شوہر سے زیادہ مذہبی اوردوراندیش نظرآتی تھی ۔ملکہ کاہم عمرکولمبس ملکہ کے سامنے دست بستہ وضمیدہ کھڑاتھا۔اس موقع پرملکہ ازبیلااورکولمبس کے درمیان براہ راست یوں مکالمہ ہوا،، ملکہ ازابیلا…..تم کیاتوقع رکھتے ہو؟…….کولمبس مجھے امیرالبحرکاخطاب اورمراعات تفویض دی جائیں اورمیں جن ملکوں کوفتح یادریافت کروں انکا اور سپین کی شاہی حکومت کاوائسرائے مقرر کیاجائے ۔اسکے علاوہ نودریافت کردہ علاقوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کادسواں حصہ میرے لئے مختص ہوجبکہ میں اس بحری مہم کے کل اخراجات کے آٹھویں حصے کی سرمایہ کاری پرتیار ہوں……ملکہ ازابیلا اس اٹھویں حصے کی سرمایہ کاری کی و ضاحت ہونی چاہیے۔
ذاتی سرمایہ کاری کے عوض متوقع آمدنی میں سے مزیدآٹھویں حصے کے حصو ل کی توقع رکھتاہوں ۔میں جوبھی علاقے اورملک دریافت یافتح کروں گا۔وہاں پرعیسائیت پھیلانے کا کام صدق دل اورپوری کوشش سے کروںگا،میں نامعلوم زمینوں پرعیسائیت کانمائندہ بن کراورعیسائی چر چ کاپیغام لے جاناچاہتاہوں ،میںدریافت کردہ ملک سے ہونے والی آمدنی کامعقول حصہ یروشلم میں مسلمانوں سے عیسائی معبدگاہوں کی بازیابی میں خرچ کرنے کامضبوط ارادہ رکھتاہوں ،(امریکن ہسٹری ۔جلد 1صفحہ 1800)۔ یہ وہ ریاست ہے جسے آج ہم امریکہ کے نام سے جانتے ہیں جوعیسائیت کی پرچار اوراسلام دشمنی پرقائم کی گئی۔
ذراسوچیں توبھلایہ امریکہ کبھی ہمارے مسائل حل کرے گا،ہاںضرورکرے گا،قرآن کہتاہے مگراس کے لئے ایک سنگین شرط ہے ،یہ یہود ونصریٰ کبھی تمہارے دوست نہیں ہوسکتے یہاں تک کے تم اپنے دین ِاسلام سے پھرجاؤاوراُنکی جھوٹی اورمن گھڑت مذہبی روایات کی پیروی کرنے لگو۔یہ شرط کم سے کم ایمان والامیری طرح کاگناہ گار شخص بھی قبول کرنے کے لئے تیارنہیں ہوسکتا۔امریکہ دنیامیں باورتویہی کراتاہے کہ وہ امن کاٹھیکدارہے،مگردنیامیں سب سے زیادہ اگرکوئی ملک امن کی بربادی کاسبب بناہے تووہ امریکہ ہے۔
America
1945-46میں چین پرحملہ کرنے والا امریکہ ،1950-53میں کوریاپرفوج کشی کرنے والایہی امن کاداعی ،1958ء میں انڈنیشیاء میں قتل وغارت کرنے والایہی امن ڈنڈوراپیٹنے والا ،1959-60ء میں کیوبامیںبارودکی بارش کرنے والا یہی امن کاپیرو،1960ء میں گوئٹے مالامیں ظلم وبربریت کی داستانیں رقم کروالایہی امن پسند ،1964ء میں کانگوپرفوج کشی کرنے والا یہی انصاف پسند 1965-ء میں پیروپرداستان ِسفاک کامظاہرہ کرنے والا یہی اعتدال پسند،1964-73ء میں لاؤس پر آگ وآتش بن کراترنے والا یہی روشن خیال ،1961-70میں ویت نام کے انسانوں کوقیمہ بوٹی کرنے والا یہی انسانیت کے درد کا دعوے دار، 1969-70ء میں کمبوڈیامیں فوجیں اتارنے والا یہی مظلوموں کادوست،۔ 1983ء میں گرینیڈاپرچڑھائی کرنے والا یہی اخلاق کادرس دینے والا 1984-ء میں لبنان کے مسلمانوں پرمشق شمشیری کرنے والا یہی داعی اعظم آف امن امریکہ ،1986ء میں لیبیاء پر حملہ آورہوکرظلم کے پہاڑتوڑنے والا یہی انسانوں کا ہمدرد ،1980ء میں السلواڈورمیں ظلم وستم کابازار گرم کرنے والا یہی امریکہ ،1980ء میں ناکاراگوامیں بم گرانے والا یہی امریکہ،1989ء میں پانامہ پرحملہ آور ہونے والایہی امریکہ ،1991-99ء میں عراق کے مظلوم مسلمانوں پرحملہ آورہوکرمسلمان ماؤں بہنوں کی عزتوں کوپامال کرنے والا یہی امریکہ ،1988ء میں سوڈان پرفوجیں اتارکرمشق ظلم وستم کرنے والا یہی امریکہ ،1998ء میں افغانستان پرکروزمزائل گرانے والا یہی امریکہ ،1999ء میں یوگوسلاویہ پرحملہ کرنے والا یہی امریکہ۔
پھر2001ء میں افغانستان پرحملہ آورہوکراسلام دشمنی کاثبوت دیتے ہوئے مسجدیں گراتے ہوئے قرآن جلاتے ہوئے مسلمانوں کے گھرگراتے ہوئے بچوں کوگاجرمولی کی طرح کاٹنے والایہی امریکہ ،افغانستان کی باحیاء ہماری مسلمان بہنوں کی عزتیں پامال کرنے والا یہی دنیاکے امن کادشمن ،ظلم وبربریت کوپروان چڑھانے والا امن کا سب سے بڑا دشمن امریکہ ،-اس ظالم اوردہشت گرد ملک سے یہ امید رکھناکہ ہمارے مسائل حل کردے گا۔
ہاں اگرکوئی یہ کہے کہ پاکستان میں بگڑتے حالات کی اصل وجہ امریکہ ہے تویہ بات سوفیصدنہ سہی پچاس فیصدضرور درست ہے ،باقی پچاس فیصد کاسہرہ ہ ہمارے ولائیتی حکمرانوں کے سر جاتاہے ،جنکی غلط فہمی بھی یہی ہے کہ امریکہ کے ساتھ دوستی ہمارا مسائل کا اصل حل ہے، جس سے ہمیں امیدِ بہارہے وہ ہماراازلی دشمن ہے کون نہیں جانتاکہ ملک کے اندر ہونے والی تخریب کاری کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے کس کواس بات کاعلم نہیں کہ امریکہ ہمارادوست ہے یادشمن پھربھی اگرامریکہ سے امیدبہارہے توافسوس صدافسوس ۔آخر پہ میرا ایک شعر ان مسلمانوں کے لئے جو اس غلط فہمی کا شکار ہیں۔
دل میں یہ خیال بیکار نہ رکھ امریکہ سے امیدبہارنہ رکھ،
Sajjad Gul
تحریر : سجاد گل dardejahansg@gmail.com Phon# +92-316-2000009