امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی بحریہ کا کہنا ہے کہ امریکا نے ہائپرسونک میزائل ٹیکنالوجی کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ ہتھیاروں کا یہ نیا سسٹم چین اور روس پہلے ہی تیار کر چکے ہیں۔
امریکی بحریہ کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق ہائپرسونک میزائل ٹیکنالوجی کا تجربہ بدھ کے روز ورجینیا کے ویلوپس میں ناسا کے ایک تجرباتی اڈے پر کیا گیا۔ بیان میں کہا گیا ہے،”یہ بحریہ کے ڈیزائن کردہ عام ہائپرسونک میزائل کی تیاری کی سمت ایک اہم قدم ہے۔”
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ”یہ تجربہ حقیقی آپریٹنگ ماحول میں جدید ترین ہائپرسونک ٹیکنالوجی، صلاحیتوں اور پروٹوٹائپ سسٹم کا مظاہرہ ہے۔”
ہائپرسونک میزائل عام بیلسٹک میزائل کی طرح ہوتے ہیں مگر آواز کی رفتار سے پانچ گنا زیادہ تیز ہوتے ہیں۔ بیلسٹک میزائل کے برعکس انہیں زیادہ لچک سے چلایا جا سکتا ہے اور یہ فضا میں نچلی سطح پر چل سکتے ہیں، جس کی وجہ سے ان سے دفاع کر پانا مشکل ہو جاتا ہے۔
چین اور روس ہائپر سونک میزائل پہلے ہی تیار کرچکے ہیں۔ چین نے گزشتہ اگست میں جوہری صلاحیت رکھنے والے ہائپرسونک میزائل کا تجربہ بھی کیا تھا۔ جس پر امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ دنوں تشویش کا اظہار کیا تھا۔
تخفیف اسلحہ کانفرنس میں امریکا کے مستقل نمائندے رابرٹ ووڈ نے بھی اس ہفتے کے اوائل میں ان خبروں پر تشویش کا اظہار کیا تھا جن میں کہا گیا ہے کہ چین نے جوہری صلاحیت رکھنے والے ہائپر سونک میزائل کا اگست میں تجربہ کیا تھا۔
فنانشل ٹائمز نے گزشتہ ہفتے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ مذکورہ راکٹ خلا میں پرواز کے دوران پورے گلوب کا چکر لگا کر نیچے گرا، تاہم مقررہ ہدف تک پہنچنے میں ناکام رہا۔
امریکی سفیر ووڈ کا کہنا تھا،”ہائپرسونک میزائلوں کے محاذ پر ہمیں چین کی سرگرمیوں پر شدید تشویش ہے۔”
چین کا تاہم کہنا ہے کہ اس نے جوہری ہتھیار لے جانے والے ہائپرسونک میزائل کا نہیں بلکہ ایک عام خلائی جہاز کا تجربہ کیا تھا۔
ووڈ نے کہا کہ روس کے پاس بھی ہائپرسونک ٹیکنالوجی ہے اور گرچہ امریکا اس شعبے میں فوجی صلاحیت حاصل کرنے سے اب تک گریز کرتا رہا ہے مگر اب اس کے پاس اس کا جواب دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔
انہوں نے کہا،”اگر آپ ایسے ملک ہیں جو اس (ٹیکنالوجی) کا ہدف ہے، تو آپ چاہیں گے کہ اپنا دفاع کرنے کا طریقہ ڈھونڈیں۔ اس لیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہائپر سونک ٹیکنالوجی کی جگہ کس طرح کے دوسرے ایپلی کیشنز اور دفاعی آلات کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔”
چین نے سن 2019 میں ایک میڈیم رینج کے ہائپرسونک میزائل کی نمائش کی تھی۔ ڈی ایف 17 نامی یہ میزائل 2000 کلومیٹر تک وار کر سکتا ہے اور جوہری مواد بھی لے جا سکتا ہے۔
فنانشل ٹائمز کی رپورٹ میں جس میزائل کا ذکر ہے وہ اس سے مختلف ہے اور اس کی رینج بھی زیادہ ہے۔ اسے مدار میں لانچ کیا جا سکتا ہے اور پھر یہ فضا میں واپس آ کر ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
روس نے بھی حال ہی میں ‘زرکون‘ نامی ہائپر سونک میزائل آبدوز سے لانچ کیا تھا۔ سن 2019 سے اس کے پاس جوہری صلاحیت والے آون گارڈ میزائل بھی ہے، جو آواز کی رفتار سے 27 گنا تیز ہے اور اونچائی اور راستہ بدل سکتا ہے۔
پنٹاگون کو امید ہے کہ وہ سن 2025 سے قبل اپنا پہلا ہائپر سونک ہتھیار تیار کرلے گا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس طرح کے ہتھیار کی تیاری اس کی ”اولین ترجیحات‘‘ میں سے ہیں۔