تحریر : علی عمران شاہین امریکہ اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کے خلاف بالآخر پوری طرح کھل کر سامنے آ گیا۔ امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے اپنی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا کہ چین جو اقتصادی راہداری براستہ پاکستان بنا رہا ہے وہ خطے کے متنازعہ علاقے سے گزرتی ہے۔ اس حوالے سے اگلے اقدام کے طور پر اعلیٰ امریکی حکام اسی ماہ یعنی اکتوبر میں پاکستان کا دورہ کریں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کو امریکی صدر کی جانب سے خصوصی سخت پیغام بھی پہنچایا جائے گا۔ امریکی وزیر دفاع کے اس بیان سے پہلے امریکی جنرل اور جائنٹ چیف آف سٹاف جنرل جوزف ڈونلڈنے کہا تھا ، انہیں یقین ہے کہ آئی ایس آئی کے شدت پسند تنظیموں سے رابطے ہیں۔ اسی بات ذکر کئے بغیر امریکی صدرکتنے عرصے سے پاکستان کودھمکیاں دے رہے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے، ایک طرف امریکی پاکستان کو مسلسل دھمکیاں دیتے ہیں تو ساتھ ہی یہ منتیں اور درخواستیں بھی کرتے ہیں کہ افغانستان کے کمبل سے جان چھڑانے کے لئے افغان مجاہدین (افغان طالبان) سے کوئی راہ و رسم نکال کر بات چیت کروایئے۔
امریکی ویسے تو انہیں افغان حکومت میں ایک بڑا حصہ دینے پر رضامند ہیں اور دنیا کے کئی ملکوں بشمول ترکی، جرمنی، جاپان، مالدیپ، پاکستان اور قطر میں مذاکرات کی بساط بھی بچھا چکے ہیں لیکن افغان قوم کے ان غیوروں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ امریکہ یہاں سے غیر مشروط طور پر نکل جائے تو بات ختم، ورنہ جنگ جاری رہے گی۔ امریکی اس بات پر حیران و پریشان ہیں کہ ان کی تودنیا کے ایک ایک انسان بلکہ ایک ایک ذرے پر نظر ہے اور کوئی جاندار و بے جان ایسا نہیں جس کے بارے میں وہ نہ جانتے ہوں کہ وہ کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے؟ ان کی ڈیجیٹل اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی اس قدر ایڈوانس ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی لیکن افغانستان کا دارالحکومت کابل جو دنیا کے سخت ترین سکیورٹی زونز میں سے ایک ہے، وہاں مسلسل مریکی اور اتحادی فوجیوں اور ان کے قافلوں پر حملے ہو جاتے ہیں بلکہ امریکی وزیر خارجہ اور آرمی جنرل پر بھی کابل ایئرپورٹ پر اترتے ہی حملہ ہو جاتا ہے۔ اب نجانے یہ حملے کرنے والے کہاں چھپے بیٹھے ہوتے ہیں حالانکہ امریکہ سمجھتا ہے کہ وہ فضائوں، خلائوں اور زمین کی تہوں میں چھپے ہوئے اسرار بھی جانتا ہے۔ یہی وہ ان دیکھی ایمانی طاقت ہے جس نے امریکہ کو لرزا رکھا ہے اور امریکہ پاکستان کو دھمکیاں دے کر کسی طرح فقط افغانستان کے کمبل سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افغانستان سے امریکہ کے سارے ہی اتحادی اس کا ساتھ چھوڑ کر کب کے جا چکے ہیں۔ امریکہ کی آخری امید بھارت تھی لیکن بھارت نے بھی جب افغانستان میں اپنے چند ہزار فوجی و افسران بھیجے تو اسے بھی تباہ کن حملوں کا سامنا ہوا۔ متعدد اعلیٰ افسران اور سینکڑوں فوجی ہلاک و زخمی ہوئے توبھارت افغانستان سے سرپٹ بھاگ کھڑا ہوا اور بھیجے گئے سارے فوجی بھی واپس بلا لئے۔ اب بھارت کہتا ہے کہ وہ افغانستان میں ترقیاتی کام تو کر سکتا ہے لیکن فوج دوبارہ قطعاً نہیں بھیجے گا۔یہی حال دیکھ کر امریکہ کو افغانستان سے جان چھڑانے کے لئے اگلا یہ راستہ نظر آیا کہ وہ بھارت کے ساتھ ہی تعلقات مزیدگہرے کرے۔ افغانستان پر تو ہی عملاً امریکہ کی ہی حکومت ہے، سو اشرف غنی اینڈ کمپنی امریکی مرضی کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتی۔ حیرانی تو ان عقل سے عاری ہمارے قومی نام نہاد دانشوروں پر ہوتی ہے جو کئی مرتبہ باقاعدہ طور پر اشرف غنی کو بااختیار کردار سمجھ کرمشورے دینے شروع کر دیتے ہیں کہ ہمیں افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے پوری کوشش کرنی چاہئے۔
کوشش ضرور کرنی چاہئے لیکن جب وہاں حکومت امریکہ کی ہے تو معاملہ ہی الگ ہے۔ اسی لئے توپاکستان کے بغیر ایک دن نہ گزار پانے والا افغانستان ہمیں آنکھیں دکھانے لگتا بلکہ گولہ باری، فائرنگ کر کے ہمارے فوجی جوانوں اور شہریوں کو شہید تک کرنے لگتا ہے۔ یہ سب کچھ اشرف غنی والا افغانستان نہیں کرتا ،امریکہ والا افغانستان کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان قوم آج بھی پاکستان کے ساتھ دل و جان سے کھڑی ہے، کیونکہ ہم ان کے 40سال سے سب سے بڑے محسن و میزبان ہیں۔ امریکہ کے چند سو کرائے کے لوگ ہوں یا افغان میڈیاجو سو فیصد بکائو مال ہے کامعاملہ بالکل الگ ہے۔صرف پاکستان کو گھیرنے اور مرضی کا فیصلہ مسلط کرنے اور مرضی کی راہ نکلوانے کے لئے امریکہ ایسی حرکتیں کر رہا ہے۔اس وقت کابل سے روزانہ نئی دہلی کی دو فلائٹس چل رہی ہیں۔ ٹکٹ انتہائی سستا ہے، افغانیوں کو بھارت میں سہولیات دینے کا اعلان ہے، تعلیمی ادارے کھولنے کی باتیں ہیں۔ یہ سب کچھ پاکستان کے خلاف اور پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لئے ہے۔ اس حوالے سے قومی سیاسی قیادت بشمول وزیراعظم اور فوجی قیادت کا یہ دو ٹوک موقف کہ افغانستان میںبھارت کا کسی بھی قسم کا کردار انہیں قبول نہیں، انتہائی لائق تحسین ہے۔ہمارا یہی موقف اب امریکہ کیلئے پریشانی کا باعث بنا تو اس نے بات سی پیک تک پہنچا دی ،وگرنہ سی پیک کوئی آج کا منصوبہ تو نہیں۔ گوادر بندرگاہ کی گہرائی اور اہمیت کا سب کو علم تھا اور سی پیک پر تو ایک طویل عرصہ سے کام ہو رہا تھا۔اگر پاکستان کو آزادکشمیر سے سی پیک روٹ گزارنے پر اعتراض نہیں تو امریکہ کو اس سے کیا تکلیف ہے۔ جتنی بڑی پریشانی اور دکھ و تکلیف کا اظہار امریکہ نے کیا ہے، اتنا تو بھارت نے بھی نہیں کیا۔
اگر امریکہ کو خطے کے متنازع ہونے کا اتنا دکھ ہے تو وہ مسئلہ حل کرنے کے لئے آگے کیوں نہیں آتا؟ اقوام متحدہ بھی عملاً امریکہ کی لونڈی ہے۔ امریکی اشارے پر اقوام متحدہ سعودی اتحاد کو یمن میں حملوں کے حوالے سے بلیک لسٹ قرار دے دیتی ہے لیکن سب سے زیادہ خونریزی کرنے والے امریکہ اس کے اتحادیوں حتیٰ کہ بشار الاسد اور حالیہ برما (میانمار) کی حکومت کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتی کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ امریکہ کو کشمیر کے متنازعہ ہونے سے کوئی پریشانی نہیں، اصل مسئلہ پاکستان کے مضبوط ہونے اور آگے بڑھنے سے ہے۔ اسی لئے تو امریکہ کے بعد اب بھارتی فوج نے ایک جیسی بولی بولتے ہوئے یہ تک کھل کر کہہ دیا ہے کہ انہیں پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے شدید خطرات ہیں اور وہ انہیں تباہ کرنے کے لئے حملہ کر سکتے ہیں۔ بھارت اس طرح کے حملوں المعروف سرجیکل سٹرائیکس کی باتیں بالعموم کرتا رہا ہے۔یہی باتیں دبے لفظوں میں امریکہ کئی مرتبہ کر چکا ہے کہ وہ دنیا میں جہاں اور جب چاہے گا، دشمنوں کو نشانہ بنائے گا۔ یعنی ہمارے حوالے سے دونوں ملکوں کی باتیں اور کردار ایک جیسا ہے۔سوال یہ ہے کہ اس سب کے بعد بھی اس بات سے چمٹے ہیں کہ ہم نے امریکہ سے ہی ہر صورت اپنا اتحاد اور دوستی قائم رکھنی ہے۔ پاکستان پر اللہ کا فضل و کرم ہے کہ جغرافیے، عسکری قوت، آبادی اور مسلم دنیا میں سب سے زیادہ مرکزی حیثیت کی وجہ سے اسے دنیا کے نمایاں ترین ممالک میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ امریکہ لاکھ دھمکیاں دے، بھارت لاکھ اعلان کرے لیکن وہ حملے کی جرأت نہیں کر سکتے مگر ان کی سازشوں اور شرارتوں کے توڑ کیلئے ہمیں بھی سنجیدگی اختیار کرنا ہو گی۔
دشمن کو دشمن سمجھنا ہو گا۔ بھارت سے اگر ہمارے سفارتی و تجارتی تعلقات نہ بھی ہوں تو کوئی پریشانی والی بات نہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت اپنی برآمدات بڑھانے، تجارتی معاملات بہتر کرنے اور کرپشن ختم کر کے ملک کو بہتر بنانے کے بجائے درون خانہ ٹکرائو میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔ اگر ملک میں ہمارا کسی کے ساتھ کوئی اختلاف ہے بھی تو اس کا حل کسی بھی وقت ہو سکتا ہے کیونکہ وہ تو اپنے ہی ملک کے اپنے ہی لوگ ہیں۔ ہمیں اصل خطرات جہاں سے درپیش ہیں، فوری طور پر ان کے خلاف سنجیدگی سے سوچنے اور عملی اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ چین کے علاوہ مسلم دنیا کو متحرک و منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلم دنیا کے مسائل کو ہم اپنے مسائل سمجھیں گے اور ان میں دلچسپی لیں گے تبھی وہ ہمارے ساتھ کھڑے ہونے کے لئے آگے آئیں گے لیکن اگر ہم اپنے دوست ممالک خصوصاً سعودی عرب اور عرب ممالک کو پس پشت ڈالیں گے تو ہر مصیبت و مشکل میں کام آنے والے یہی دوست آخر کہاں کھڑے ہوں گے؟سچ یہ ہے کہ اس وقت ہمیں قومی و بین الاقوامی اور عالمی سطح پر ایک نئی اوردلیرانہ جارحانہ پالیسی اور اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ ہم جتنا جلدی کر لیں گے ہمارے دشمن اتنی جلدی ناکام اور ہم سرخرو ہو سکیں گے۔
Ali Imran Shaheen
تحریر : علی عمران شاہین ( برائے رابطہ:0321-4646375)