تحریر: عبدالحنان ٹرمپ کی صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کیا معاملات اب تک ہوئے ہیں اور کہاں تک بات پہنچی ہے۔ ٹرمپ مسند اقتددار سنبھالنے کے بعد کیا کرے گا اور کیا نہیں اسکا اندازہ اسکی الیکشن مہم سے لگایا جا چکا تھا۔ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے فورا بعد اس نے اپنے مزموم عزائم کی تکمیل میں کوئی تاخیر نہیں کی اورسب سے پہلے امریکہ میں اوبامہ کے صحت کے منصوبے کا خاتمہ کر دیا اور اس کے ساتھ ہی میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے ایگزیگٹیو حکم نامہ کے جھٹکے سے دنیا ابھی باہر نہیں نکلی تھی کہ ٹرمپ نے سات ممالک کے پناہ گزینوں کی آمد پر پابندی عائد کر کے دنیا بھر کے حکمرانوں کو ایک غیر مثبت پیغام دیا۔ کوئی بھی احتجاج اور مذمت ٹرمپ کے راستے میں رکاوٹ تاحال ناکام نظر آتی ہے اور تو اور اقوام متحدہ کو دیے جانے والے فنڈز میں کٹوتی بھی یورپ کے حکمرانوں کوایک آنکھ بھی نہیں بھا رہی ایران کے بلیسٹک میزائل کے تجربے کے بعد دی جانے والی دھمکی نے دنیا کو چونکاہ کر رکھ دیا ہے ۔اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ وہ امریکہ جو روس مخالف روش کے باعث دنیا میں جانا جاتا تھا ،ٹرمپ سرکار کی آمد کے بعد اس روش سے بھی انحراف کیا جا چکا ہے۔ جہاں پوری دنیا کے صدر امریکہ کو سرخیل مانتے تھے۔
ٹرمپ کے کھڑے ہوتے ہی دنیا بھر میں بے چینی نمایا ہونے لگی ہے اسکا جوایجنڈا ہے اور ٹرمپ کی مثال دو ایسی شخصیت سے دی جاسکتی ہے جنہوں کا نام تاریخ کے سیاہ باب میں درج ہوگا اسکی ایک مثال تو بالکل جرمنی میں ہٹلر کی جیسی ہے ہٹلر بھی ایک ڈیمو کریٹک اور اور الیکٹرک ہٹلر تھا۔اور وہ ایک فیشسٹ fashist)) پارٹی کا ممبر تھا۔اور اسکے آنے کے بعد اس نے جو کیا سب کے سامنے ہے اسکی وجہ سے چارکروڑ افراد کو تباہ بربادہوئے پوری دنیا میں تباہ بربادی کا ایک ماحول برپا کیا آخر میں اسکا اپنا انجام بھی عبرتناک ہوا۔اور جو اس وقت ٹرمپ کی پالیسی ہے اسکا اندازہ آپ دوسری شخصیت بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی سے لگاسکتے ہے یہ دونوں صہیونی لیڈر ہیں (zionest)24جنوری رات 11;30پر نریندر مودی بھارتی وزیر اعظم کو امریکی صدر ڈولنڈٹرمپ کی کال آئی تھی۔ دونلڈ ٹرمپ کے صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد اس نے سب سے پہلے کینیڈا کے وزیراعظم، میکسیکو کے وزیر اعظم ،اسرائیل کے وزیر اعظم اور مصر کے صدر کو کال کی تھی ۔ اور اسکے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کو کال کی جس میں ٹرمپ نے سب سے پہلے نریندر مودی کو امریکہ آنے کی دعوت دی۔اور اسکے ساتھ ڈولنڈ ٹرمپ نے انڈیا کو اپنا سچا دوست ثابت کروانے کی کوشش کی ۔ ان کی کاروبار کے علاوہ کافی امور پر بات چیت ہوئی اس وقت بھارت اور امریکہ کے درمیان 62عرب ڈالر کا کاروبار چل رہا ہے ۔جس میں 40عرب ڈالر کی ایکسپورٹ اور 22 ارب ڈالر کی امریکہ سے ایمپورٹ کرتا ہے۔
India and America
اس دوران انہوں نے دہشتگردی کے خلاف بات چیت کی بھارت اور امریکہ کی بات اس لئے اہم ہے کہ ڈولنڈ ٹرمپ نے صدارت سے پہلے ان چند ملکوں کا انتخاب کیا جن سے وہ صدارت کے بعد اپنا رشتہ مظبوط کرنا چاہتا تھا ۔امریکی صدر نے صدارت سے پہلے لوگوں کے سولات کے جوابات دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر صدر بنے تو بعض امور پر پاکستان کے خلاف ممکن ہے بھارت سے مدد لینا پڑے گی۔نریندرمودی سے پہلے مننموہن سنگھ ہندوستان کا وزیراعظم تھا ،لیکن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اور بالحصوص پاکستان کے بارے میں ان کے جو احمقانہ نظریات تھے ۔ایک وقت آنے پر سب کے سامنے کھل کر واضع ہو چکے تھے ۔لیکن پھر بھی اس نے بڑی ہوشیاری اور اپنی ناپاک سازشوں کو مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف استعمال کیا،منموہن سنگھ کو کانگرس اوپر لیکر آئی تھی۔اور یہ وہ ہی کانگرس ہے جس نے ہندئوں اور انگریزوں کے مفاد کے لئے کام کیا اور مسلمانوں سے تعصب کی بنیاد پر ان کو حکومتی عہدران میں اگے بڑھنے نہیں دیا گیا ڈیرھ عرب کی آبادی والے ملک میں مسلمانوں کی انڈین پارلیمنٹ میں صرف 6فیصد نمائندگی ہے ،جو مسلمانوں کے ساتھ سراسر زیادتی ہے ۔اور اسی کانگرس کی رہنماء اندراگاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کانگرس کا مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف کیا ردعمل تھا۔
کانگرس کی سازشیں ایک سیاسی اور منظم طریقے سے مسلمانوں کے خلاف پروان چرہائی گئی تھی۔لیکن دوسری طرف نریندر مودی ہے۔ جس نے 3اکتوبر 2001ء میں پٹیل کی جگہ گجرات کا وزیر اعلی منتخب ہوا اور 13سال صوبہ گجرات میں حکمرانی کی گجرات کے مسلمانوں کے لئے یہ مودی کے 13سال قیامت سے کم نہ تھے مسلمانوں پر ظلم ستم کی انتہا کردی نا صرف ان کے گھروں کو جلایا بلکہ لاتعداد مسلمانوں کو نہایت وحشیانہ طریقہ اپناتے ہوئے ان کو زندہ جلادیا اور وہ یہی متعصب عمل تھا جس کی بنیاد پر اسے RSSاور BJPنے اسے ملک کا وزیر اعظم مقرر کروایا تھا اس طرح نریندر مودی26مئی 2014ء کو بھارت کا چودواں وزیراعظم منتخب ہوکر مسلمانوں پر ظلم ستم کی ایک نئی تاریخ رقم کرنے لگا ہے اسی طرح مسلمانوں کے خلاف سازشوں کی تیاری شروع کردی گئی تھی ۔یہاں پر بس نہیں اسی نریندر مودی نے جون 2016ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ مشرقی بنگال کو پاکستان سے علیحدہ کرنے میں ہم نے بھرپور کردارا ادا کیا اور نریندر مودی نے کا رکن کے طور پر اس میں حصہ لیا تھا ۔نریندر مودی نے ہندوستان کا گھنائونا چہرہ واضع کردیا ہے اور مسلمانوں اور پاکستان دشمنی میں کھل کر سامنے آگیا ہے آج ہندستان میں 60سے زائد برادریاں ،تنظیمیں ہیں جو نریندر مودی سے تنگ ہے اور اس کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے سراپا احتجاج ہیں ۔ان میں خالصتان کی تحریک اور دھلت برادری سرفہرست ہے خالصتان کی تحریک نے 2020ء میں ریفرنڈم کا علان کر دیا ہے۔
آج یہی حال امریکہ کے نئے منتحب صدر ڈولنڈ ٹرمپ کاہے ۔نریندر مودی اور ٹرمپ کی پالیسی ایک ہے ڈولنڈ ٹرمپ سے پہلے امریکی سابقہ صدر اوبامہ نے مسلمانوں کے خلاف اپنی پالیسی میں لغزش پیدا نہیں کی بلکہ مسلمانوں کے خلاف اپنے اقدامات کودن بدن سخت کیا امریکی کانگرس نے اوبامہ کو امریکہ کا صدر منتخب کیا ۔اوبامہ نے مسلمانوں کیخلاف ایک منظم سازش کی اور مسلمانوں کے ملکوں میں دہشتگردی کے واقعات کو جنم دیا مشرقی وسطی میں جو تباہی ہوئی اور کروڑوں انسانوں کو تباہ برباد کیااس کو ڈولنڈ ٹرمپ نے نہیں بلکہ امریکہ کے سابقہ صدر اوبامہ نے کیا ہے اوبامہ ایک سیاستدان تھا اسے کھیل کھیلنا آتا تھا اس لئے اس نے اپنی پالیسی کو واضع نہیں کیا اور مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار رہا ۔لیکن ٹرمپ کھل کر سامنے آگیا ہے جیسے نریندرمودی کھل کر آیا ہے اور جو کام،اقدامات اوبامہ اپنے8سا لہ دور حکومت میں نہیں کرسکا اسے اب ٹرمپ پورا کرئے گا ۔انکی پالیسی کبھی بھی تبدیل نہیں ہوسکتی جب عراق پر حملے کی بات آئی تھی تو تب پوری دنیا میں اتنے بڑے مظاہرے ہوے لاکھوں افراد باہر نکل کرآئے تھے لیکن کیا ہوا عراق پر حملہ ہو ا 10لاکھ افراد کو قتل و غارت کا نشانہ بنایا لیبیااور شام پر بھی حملہ ہوا مسلمان ممالک کو بالکل کھنڈر بنا کر رکھ دیا گیا تھا ۔مظاہروں کے باوجود کچھ نہ ہوسکا ان کی سٹٰیٹ اور حکومت کا ساتھ دینے والا میڈیاہولڈراور تھنک ٹینکس انکی آرمی اتنی طاقت ور ہے کہ ان کو مظاہروں سے کوئی فرق نہیں پڑتا سفاکیت اور بربریت کو یہ قائم رکھے گا حقیقت میں ٹرمپ امریکہ کا وہ چہرا تھا جو آج سے پہلے چھپا ہو اتھا ۔ یہ ایک متعصب شخص ہے اور مسلم دشمنی میں آج سب کے سامنے واضع ہوگیا ہے ٹرمپ کی طر ف سے علان جنگ ہوچکا ہے لیکن ہماری حکومت خاموش ہے ان کی پالیسی وہی جو پہلے چلتی آرہی ہے 3 بڑے مسلم ممالک ہیں جن میں پاکستان ،اور سعودیہ عرب,اور ترکی شامل ہے۔
ان کے مد مقابل اسرائیل ،امریکہ ،اور انڈیا ہے آج ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پید اکرنا ہوگا اسلامی ممالک کا آپس میں ٹکرائو تو دوسری طرف یہودو ہنود کی طرف ان کا جھکائو بلاشبہ ایک نیاء خوفناک منظر پیش کرتا دکھائی دے رہا ہے ۔پاکستان کو ان ملکوں کے دبائو سے نکلنا ہوگا ، پاکستان خود اس ٹائم اندرونی بیرونی دبائو کا شکار ہے ،اگر پاکستان ایسا نہیں کرتا تو پاکستان کو آئے دن ان ملکوں کے مطالبات ماننے ہوگئے اور جیسے حالیہ دنوں جماعة الدعوة کے امیر حافظ محمد سعید کو امریکی پریشر میں آکر نظر بند کیا گیا ہے اسی طرح کل اور پرسوں ہر دوسرے شخص کا امریکہ اور اسکے اتحادی مطالبہ کرئے گئے اور حکمرانوں کو کے مطالبات کو ماننا ہوگا ۔ہمیں اپنا موقف پیش کرنا چاہیے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ دبائو کا شکار نہ ہو بلکہ پوری قوم کو اعتمادمیں لیکر ملکی سلامتی کے لئے اقدامات ادا کریں اور اپنی خارجہ پالیسی کو بہتر کرنے کے ساتھ ہمیں ترجمان کی بجائے مستقل وزیر خارجہ بنانا ہو گا۔