امریکہ اور مہا بھارت

Afghan Taliban

Afghan Taliban

تحریر : سید توقیر زیدی
بائیس مئی کو ضلع نوشکی کے گاؤں احمد وال میں افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کئی اعتبار سے ایک حیران کن واقعہ تھا۔ اس حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا تھا کہ ملا منصور امن کیلئے خطرہ تھا اسلئے اسے ہلاک کرنا ضروری تھا۔ یہ ڈرون حملہ اور اس پر جان کیری کا تبصرہ اس لئے حیران کن تھا کہ ان دنوں امریکہ پاکستان سے مطالبہ کر رہا تھا کہ وہ افغان طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرے۔ اب اس واقعے کے چار ماہ بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ امریکہ نے ملامنصور کی ہلاکت کے فیصلے کے ساتھ ہی یہ بھی طے کر لیا تھا کہ پاکستان کی معاونت سے طالبان کیساتھ مذاکرات افغان جنگ کا صحیح اور قابل عمل حل نہ تھا۔ گویا پاکستان کو امن مذاکرات سے نکال دینے کے فیصلے کے بعد ملامنصور کی ہلاکت کا فیصلہ ہوا تھا۔

کویت میں مذاکرات کے لئے طالبان کا دفتر قائم کرنے کی اجازت دینے اور کئی سالوں تک جنگ کے خاتمے کیلئے طالبان سے بات چیت کو ناگزیر سمجھنے کے بعد امریکہ نے اچانک افغان طالبان کے سربراہ کو ہلاک کرکے اتنا بڑا یوٹرن کیوں لیا۔ اس اہم سوال کا جواب تیس اگست کو نئی دہلی میں امریکہ اور انڈیا کے درمیان ہونے والے معاہدے کا متن پڑھ کر مل جاتا ہے۔ یکم ستمبر کو شائع ہونے والے پانچ صفحات پر مشتمل مشترکہ اعلامیے کے دو صفحات دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے دونوں ممالک کے تعاون کو بڑھانے کی تدبیروں پر مشتمل ہیں۔

ان دو صفحات میں انڈیا اور افغانستان کی سرحدوں میں دراندازی کا ذکر خاصی تفصیل سے کیاگیا ہے اور اس کے ساتھ ہی داعش، القاعدہ، لشکر طیبہ، جیش محمد اور حقانی نیٹ ورک کے مکمل صفائے کو افغان جنگ کے خاتمے کیلئے ناگزیر قرار دیاگیا ہے۔ اس مقصد کیلئے امریکہ اور انڈیا میں عسکری تعاون کو بڑھانے کے عزم کا اظہار کیاگیا ہے۔ ان سطور سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں جو اہداف سوا لاکھ کے لگ بھگ امریکی افواج چودہ برس میں حاصل نہ کرسکیں۔ انہیں حاصل کرنے اور امریکی تاریخ کی اس طویل ترین جنگ کو ختم کرنے کی ذمہ د اری اب بھارت کو سونپ دی گئی ہے۔ اس نتیجے کو اخذ کرنے میں اگر کسی شک وشبے کی گنجائش تھی تو اسے مشترکہ اعلامیے کی اگلی سطور میں ختم کر دیاگیا ہے۔ ان میں2008 میں ممبئی حملے اور 2016 میں پٹھان کوٹ پر حملوں کا ذکر کرکے پاکستان سے مجرموں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیاگیا ہے۔ ممبئی اور پٹھانکوٹ حملے بھارت کی اس میڈیا وار کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ جنہیں استعمال کرکے نرمیندرا مودی کی حکومت پاکستان کے امیج کو مسخ کرتی رہتی ہے۔

امریکہ اگر اس یک قطبی دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کی حیثیت سے دنیا بھر میں قانون کی عملداری اور امن وانصاف قائم کرنے کا ذمہ دار اور دعویدار ہے تو وہ پاکستان کے اس احتجاج پر توجہ کیوں نہیں دیتا کہ بھار ت نہ صرف بلوچستان اور کراچی میں دو عشروں سے ہونے والی دہشت گردی میں ملوث ہے بلکہ اب تونریندرا مودی نے پندرہ اگست کی یوم آزادی کی تقریر میں آزاد کشمیر، گلگت، بلتستان حتیٰ کہ بلوچستان کو بھی متنازعہ علاقے قرارد ے دیا ہے۔ امریکہ برسوں پہلے اکھنڈ بھارت کا اعلان کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کے سربراہ کی اس نئی دھمکی پر کیوں خاموش ہے۔

India

India

وہ تسلیم شدہ بین الاقوامی سرحدوں کو اتھل پتھل کردینے کا اعلان کرنیوالے جنگباز کیساتھ جنگی معاہدے کیوں کر رہا ہے۔ ممبئی حملوں میں مبینہ طورپر ملوث اجمل قصاب تو ابھی تک مغربی میڈیا کی جانی پہچانی شخصیت ہے مگر بلوچستان میں گرفتار ہونیو الے انڈین جاسوس کلبھوشن یادیو کا نام ابھی تک مغربی ذرائع ابلاغ میں کیوں شائع نہ ہوا۔ ان تمام سوالوں کے جواب یکم ستمبر کو نئی دہلی سے جاری ہونے والے امریکہ انڈیا مشترکہ اعلامیے میں تلاش کئے جا سکتے ہیں۔اس دستاویز کے اہم نقاط کا ذکر آگے ہوگا مگر یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ یکم ستمبر امریکہ پاکستان تعلقات کے تابوت میں اگر آخری کیل نہ تھا تو کم از کم ایک اہم سنگ میل ضرور تھا۔ بھارت کو جنوبی ایشیائ ، بحرہند اور جنوبی چین کے سمندر کی بڑی طاقت بنانے کا فیصلہ تیس اگست کو نہیں بلکہ بائیس مئی کو ملا اختر منصور کی ہلاکت سے پہلے کرلیاگیا تھا۔ امریکہ اور پاکستان کے راستے اسی دن جدا ہوگئے تھے جب دو برس پہلے نریندرامودی نے براک اوباما کو نئی دہلی میں گلے لگایا تھا۔

ایک نجی ملاقات میں اپنے ہاتھ سے بنائی ہوئی چائے پیش کی تھی اور نہایت بے تکلفی سے صدر امریکہ کو براک کہا تھا۔ امریکہ بھارت اتحاد کی بلی اب مکمل طورپر تھیلے سے باہر آگئی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نئے سنگ میل پر کچھ دیر کیلئے سستا لیا جائے۔ آگے سفر جاری رکھنے سے پہلے چند لمحے رک کر سوچا جائے کہ مملکت خداداد نے اپنی زندگی کے انہتر(69) میں سے (68) اڑسٹھ برس جس بت کافر کی ہر بات پر نام خدا کہا جس کے عشوہ وغمزہ و نازوادا پر فریفتہ ہوکر ہم کام سے بھی گئے اور جان سے بھی گئے وہ رقیب روسیاہ کی آغوش میں کیوں جاگزیں ہوا۔ کیا انہتر برس پر محیط ہمارے قومی المیے کی دہائی دینے ولا یہ سوال اتنا بھی اہم نہیں کہ اس پر چند لمحے ہی سہی غور کرلیا جائے۔ بھارت سردجنگ کے اڑتالیس برسوں میں سوویت یونین کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونے کے باوجود آج امریکہ سے اپنی تمام شرائط منوا کر ایک جنگی معاہدہ کرچکا ہے اور ہم دہشتگردی کا داغ ماتھے پر سجائے دوستوں کی تلاس میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ چین اگر اپنا دست شفقت ہمارے سر پر نہ رکھے تو اس صحرا میں تو اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں کہ جس کے سایے تلے بیٹھا جائے۔ چلئے منیر نیازی سے رجوع کرتے ہیں۔

صحرا کی منہ زور ہوائیں اوروں سے منسوب ہوئیں
مفت میں ہم آوارہ ٹھہرے مفت میں گھر ویران ہوا
اور یہ بھی کہ
تھی شام زہررنگ میں ڈوبی ہوئی کھڑی
پھر اک ذرا سی دیر میں منظر بدل گیا
سلیم کوثر نے پشیمانی اور افسردگی کے انہی لمحات میں خود کو تسلی دی ہے۔

اک موجہ نادیدہ بہا لے گیا آخر
کیا نقش تمنا کو کنارے سے اٹھاتے

اس میں شک نہیں کہ مفت میں گھر ویران ہوا یہ بھی درست ہے کہ منظر پورے کا پورا بدل گیا ہے۔ اختلاف رائے ہوسکتا ہے مگر سامنے کی بات یہی ہے کہ اب نقش تمنا کو کنارے سے نہیں اٹھایا جا سکتا اسے موجہ دیدہ یا نادیدہ بہا کر لے گیا ہے۔

America

America

سبق اس داستان عبرت میں صرف اتنا ہے کہ بھارت نے روس سے بھی اتحاد کیا تو خم ٹھونک کر کیا سوچ سمجھ کر کیا۔ اپنی تمام دانائیوں کو اکٹھا کیا آپس میں مکالمہ کیا۔ اتحادی ملک سے لین دین کی اور تحریری معاہدے کے بعد نئے سفر کا آغاز کیا۔ بھارت نے کبھی بھی واشنگٹن یا ماسکو سے کسی فون کال کے جواب میں اپنے تمام ائیر پورٹس طشتری میں رکھ کر پیش نہیں کئے۔ یہ نہیں کیا کہ آپ جو جی چاہے استعمال کرلیں پھر دیکھا جائے گا۔

ایسا کیوں ہوا۔ وجہ اس کی یہی نظر آرہی ہے کہ نئی دہلی کے حکمران اپنی تاریخ نہیں بھولے ان کے سامنے کم از کم ایک ہزار برس تک حملہ آوروں سے معاملہ فہمی کرنے کا تجربہ موجود ہے۔ کہنے کو تو غزنوی، لودھی، خلجی، تغلق اور مغل حکمران تھے مگر تاریخ میں جھانک کر دیکھاجائے تو ہندوستان کے شہروں اور دیہاتوں کے تمام انتظامی معاملات، چھوٹے بڑے کاروبار اور سرکاری ادارے ہندوؤں کے زیر انتظام چل رہے تھے کم ہی کوئی مسلمان حکمران ایسا ہوگا جس کا وزیر خزانہ بھی مسلمان تھا۔ اکبر اعظم نے جب ٹوڈرمل کو اپنا وزیرخزانہ بنانے کا اعلان کیا تو دربار میں بیٹھے مسلمان وزیروں نے برا سنایا۔ بادشاہ نے پوچھا تم میں سے جس کسی کا منشی مسلمان ہے۔

وہ اپنا ہاتھ کھڑا کرے۔ سب کو سانپ سونگھ گیا۔ قیام پاکستان کے وقت ہمیں جو قیادت میسر آئی وہ اگر رہ جاتی تو بات بن سکتی تھی۔ وہ نہ رہی اور پھر ہمیں وہ رہنما ملے جن کے ہم مستحق تھے۔ کہا گیا ہے کہ we get the leadership we deserve ہمیں رہنماؤں کے بھیس میں جو نابغے، طالع آزما، خود پسند، اور کوتاہ فہم ملے انہوں نے ہمارا وہی حشر کیا جووہ کر سکتے تھے۔

میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا

امریکہ بھارت معاہدے کو پڑھنے کے بعد میرا تاثر یہ ہے کہ امریکہ اپنے نئے اتحادی کو دل کھول کر اپنی نئی ٹیکنالوجی، جدید جنگی جہاز اور بے پناہ اسلحہ بیچنے کے علاوہ جنوبی چین کے سمندر پر غلبہ حاصل کرنے کے قابل ہوجائیگا۔ اس کے صلے میں اس نے بھارت کو وہ سب کچھ دے دیا ہے جو وہ مانگ سکتا تھا اور جو امریکہ دے سکتا تھا۔ نریندرا مودی کی اس wish list میں مہا بھارت سرفہرست تھا۔ امریکہ نے اس کی اس خواہش کے آگے باضابطہ اور تحریری طورپر سرتسلیم خم کر دیا ہے۔ یقین نہ آئے تو دستاویز پڑھ کر دیکھ لیجئے۔

Syed Tauqeer Zaidi

Syed Tauqeer Zaidi

تحریر : سید توقیر زیدی