ایران ااور امریکا کے درمیان محاذ آرائی کشیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ ایران کے صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ مذاکرات اور سفارت کاری ہمیشہ ان کی ترجیح رہے ہیں لیکن موجودہ حالات میں بات چیت کا کوئی امکان نہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر ایران نے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو اسے پوری قوت سے جواب دیا جائے گا۔وائٹ ہائوس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ ایران نے واشنگٹن سے کھلی دشمنی مول لے رکھی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اگر ایرانی قیادت چاہے تو وہ بھی بات چیت کے لیے تیار ہیں۔لیکن پیر کو تہران میں علما کے ایک اجلاس سے خطاب میں ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ وائٹ ہائوس کے مکین گزشتہ 40 برسوں سے ایران کے خلاف سرگرم ہیں اور ہتھیاروں اور دبائو کے ذریعے ایران کو زیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے الزام لگایا کہ دشمن کی مستقل یہ کوشش رہی ہے کہ ایران محا ذ آرائی کا آغاز کرے۔ لیکن ان کے بقول ”ہم نے اب تک ایسا نہیں ہونے دیا۔”
ایران اور امریکا کے درمیان خمینی انقلاب کے بعد تعلقات خراب ہوئے ، امریکا اور ایران ایک دوسرے مقابل عراق ، شام ، یمن ، فلسطین میں اتحادی گروپوں میں آمنے سامنے رہے ہیں لیکن جس طرح امریکا اور ایران کی حالیہ کشیدگی ہے ۔ اس پر دنیا بھر کے عوام کو اس پرتشویش ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ صرف ایران تک محدود نہیں رہے گی ۔ ایران و امریکا کے درمیان تمام تر کشیدگی کے باوجود امریکا کا یہ کہنا کہ وہ جنگ نہیں چاہتا ، بلکہ وہ مذاکرات کے ذریعے ایران سے اپنے معاملات حل کرنا چاہتا ہے ۔ لیکن ایران کی جانب سے سخت رویہ اس لئے اختیار کیا گیا ہے کیونکہ صدر ٹرمپ نے یک طرفہ طور پر ایرا ن پر پابندی عائد کی ایٹمی معاہدے کو ختم کرتے ہوئے ایران پر اقتصادی پابندی عاید کردی تھی ۔ ایران کی معیشت کا دارومدار خام تیل و گیس کی فروخت اورتیل برائے اجناس کی خریداری پر ہے ۔ تاہم امریکا نے ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے 8ممالک کو دیا گیا استثنیٰ بھی ختم کردیا تھا جس کی وجہ سے ایران نے واضح طور پر یورپی ممالک کو امریکا کی جانب سے ایٹمی پروگرام بند کئے جانے کے معاہدے پر عمل درآمد کرنے کے لئے وقت دیا کہ اگر امریکا کو معاہدے پر عمل درآمد کرنے کے لئے یورپی ممالک ناکام رہے تو ایران اپنے ایٹمی پروگرام پر عمل درآمد کردے گا ۔
امریکی دو بیڑے اس وقت ایران کے کسی بھی ممکنہ حملے کے لئے بحر عربمیں موجود ہیں ، عرب ممالک نے اپنی سمندر ی حدود کو امریکا بیڑے کے لئے اجازت دے رکھی ہے۔ اس وقت یمن میں موجود ایران نواز حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب کی آئل تنصیبات پر ڈرون حملوں نے کشیدگی میں مزید اضافہ کردیا ہے ۔ آئل تنصیبات پر حملے کے بعد حوثی باغیوں کی جانب سے طائف اور شہر مکہ پر بھی حوثی باغیوں نے میزائل حملے کئے ، جنہیں سعودیہ نے فضا میں ہی مار گرائے ۔ یہ سنگین صورتحال ہے ۔ سرزمین حجاز پر حوثی حملے امت مسلمہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچا رہے ہیں۔ رمضان المبارک کے مہینے میں سر زمین حجاز میں زائرین لاکھوں کی تعداد میں آتے ہیں اور رمضان میں خصوصی طور پر عبادات میں مشغول رہتے ہیں۔ ان حالات میں حوثی باغیوں کی جانب سے میزائل حملے صورتحال کو مزید بگاڑ رہے ہیں۔
امریکی طیارہ بردار جنگی جہاز ”ابراہم لنکن” نے بحر عرب میں مشقوں کا آغاز کر چکے ہیں ، جب کہ سوشل میڈیا پر ایرانی حلقوں کی جانب سے پوسٹ کیے جانے والے وڈیو کلپوں میں ایرانی پاسداران انقلاب کی جانب سے فضائی دفاعی میزائل سسٹمSـ300 کی بیٹریز کو خلیج عربی کے کنارے واقع علاقوں میں منتقل کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ مبینہ وڈیو کلپوں میں میزائلوں اور فوجی ساز و سامان سے بھرے عسکری ٹرک اتوار کے روز بوشہر صوبے کے علاقے عسلویہ جاتے ہوئے دکھائی گئے ہیں۔ یہ علاقہ ایران کے جنوب میں خلیج عربی کے مقابل واقع ہے۔ایرانی فضائیہ کے سربراہ امریکی دھمکی کے جواب میں بمباری اور عرب آئل تنصیبات کو نشانہ بنانے کی عندیہ دے چکے ہیں ۔ ایرانی فضائیہ کے سربراہ نصیر زادہ نے بوشہر، بندر عباس اور اصفہان میں فضائی اڈوں کے دورے کے دوران ایرانی ہوابازوں پر زور دیا کہ وہ اپنی اُس قیادت کی پیروی کریں جنہوں نے عراق کے ساتھ جنگ میں اپنی جانیں قربان کر دیں،،، اور اس دوران غیر وابستہ تحریک کے سربراہ اجلاس سے قبل عراقی دارالحکومت بغداد پر کاری ضرب لگائی۔تاہم دوسری جانب ایران نے ان خبروں کی تردید کی ہے اور آئل تنصیبات پر حملے میں ملوث ہونے کی خبروں کو مسترد کیا ہے ۔
حوثی باغیوں کی کی جانب سے سعودی تنصیبات اور بغداد میں امریکی سفارت خانے کو نشانہ بنانے کی کوشش کی اطلاعات عالمی ذرائع ابلاغ میں آئی ہیں ۔حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی شہروں پر بلاسٹ میزائلوں حملوں میں مکہ کو نشانہ بنانے کی تردید کی گئی ہے ۔ یمن میں حوثی باغیوں کو ایران کی مبینہ حمایت حاصل ہے ۔ جس کی وجہ سے سعودی عرب کے ساتھ پہلے سے کشیدہ تعلقات میں سعودی عرب نے ایک فوجی اتحاد برائے دہشت گردی کے خلاف بنایا ۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی سنی عرب ملکوں نے 2015ء میں یمن کی حکومت کے خلاف حوثیوں کے بغاوت دبانے کے لیے یمن میں فوجی مداخلت کی تھی جو تاحال جاری ہے.فریقین کے درمیان لڑائی میں اب تک ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں اور اقوامِ متحدہ یمن کی خانہ جنگی کو دنیا کا بدترین انسانی بحران قرار دے چکی ہے۔ لیکن عرب ملکوں کی فوجی مداخلت کے باوجود حوثی تاحال دارالحکومت صنعا سمیت ملک کے وسیع رقبے پر قابض ہیں۔حوثی باغیوں کو شکست دینے میں ناکامی کی اہم وجوہات میں حوثی باغیوں کو ایرا ن کا سپورٹ دینا ہی مانا جاتا ہے۔ کیونکہ جدیدترین آلات جنگ کے ساتھ سعودی عرب پر بلاسٹک میزائل داغنے کی استعداد حوثی باغیوں کے پاس نہیں تھی ۔ بلکہ جنگ میں صورتحال اس قدر خراب ترین ہوچکی ہے کہ عوام کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے ۔ اقوام متحدہ برائے خوراک کی جانب سے یمنی عوام کو دی جانے والی خوراک و ادویات کی لوٹ مار پر عالمی ادارے نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
امریکا اور ایران کے درمیان کسی بھی غیر متوقع جنگ کی صورت میں پاکستان براہ راست متاثر ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ جب افغانستان میں سوویت یونین داخل ہوئیں تو 40برس سے پاکستان افغانستان میں ختم نہ ہونے والی جنگ سے متاثر ہے ۔ افغانستان کی جنگ کا منطقی انجام سخت نفسیاتی دبائو کے دور سے گذر رہا ہے ،ان حالات میں ایران اور امریکا کشیدگی میں عراق کی سرزمین استعمال کرنے کے علاوہ امریکا بحری بیڑے سے ایران کی اہم تنصیبات اور بندرگاہوں کو نشانہ بھی بنا سکتا ہے اور اس کے ساتھ اسرائیل کا جنگ میں شامل ہونا یقینی ہے ، جس کی وجہ سے پاکستان کے سیکورٹی حالات پر بدترین اثرات نمودار ہوسکتے ہیں ۔ اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان حفاظتی باڑ کا مکمل نہیں ہوا ہے ۔ پاکستان ، ایرانی کے ساتھ اپنی سرحدوں پر بھی باڑ لگانے کا عمل کو شروع کرچکا ہے ۔ تاہم غیر محفوظ سرحدوں کی وجہ سے ایران اور پاکستان میں ایک نئی پراکسی وار شروع ہونے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں ۔ جس کا فائدہ براہ راست امریکا کو پہنچے گا ۔ پاکستان کو امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کے لئے موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔
محض غیر جانب دار رہ کر امریکا ، ایران کشیدگی سے پاکستان خود کو مضر اثرات سے نہیں بچا سکتا ۔یورپی ممالک کو ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے خاص طور یمن اور سعودی عرب تنازعے کے خاتمے کے لئے اقوام متحدہ کو اپنا متحرک اور اہم کردار ادا کرنا ہوگا ۔ امریکا اور ایران دونوں ممالک جنگ کے نقصانات سے بخوبی واقف ہیں ۔ دونوں ممالک جنگ سے پیدا ہونے ہونے نقصانات کو ختم کرنے میں اپنی عوام کو مزید مشکلات میں ڈالیں گے ۔ امریکا اس وقت بیک وقت کئی خانہ جنگی اور افغانستان جیسی جنگ میں بری طرح الجھا ہوا ہے ، امریکی عوام بھی نہیں چاہتی کہ امریکا مزید کسی عالمی جنگ کا حصہ بنے اس لئے قیاس یہی کیا جارہا ہے کہ امریکی صدر نے ایران کے قریب جاکر اسے تباہ کرنے کی دھمکی دی ہے تو وہ اپنے آئندہ الیکشن کے لئے اس سے سیاسی فائدہ تو اٹھا سکتے ہیں کہ ایران جیسے ملک کو چیلنج دیا ہے جس کی افواج و اتحادی کئی ممالک میں جنگ میں مصروف ہیں ۔ امریکا ، ایران کو براہ راست چیلنج کررہا ہے ۔ اسی طرح ایران اپنے تمام تر مشکلات و نا مساعد حالات کے باوجود امریکا جیسے ملک کو کھلا چیلنج دے رہا ہے تو یہ بھی ایرانی رہنمائوں کے لئے اپنی عوام کو طاقت ور ثابت کرنے کا ایجنڈا ہوسکتا ہے۔لیکن دونوں ممالک اور عالمی برادری کو سوچنا ہوگا کہ اگر اس کشیدگی کا سدباب نہیں کیا گیا تو ایران میں شروع ہونے والی جنگ سے مغرب براہ راست متاثر ہوگا اور توانائی کے شدید بحران کا شکار ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اس جنگ میں ایران ، عرب ممالک کی تیل کی سپلائی لائن کو نشانہ بناسکتا ہے۔ عرب و ایران کے بحران کے ساتھ امریکا کو تنازعات کے حل کے لئے ہوش مندی کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس سے ایک ملک نہیں بلکہ پوری دنیا براہ راست متاثر ہو گی۔