امریکہ ایران کشیدگی سے پاکستان کو درپیش چیلنجز

America Iran Tension

America Iran Tension

تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ

امریکہ اور ایران میں کشیدگی سے خطے کی صورتحا ل بدل رہی ہے۔ پاکستان دشمن عناصر متحر ک ہیں۔جس کی بناء پر پاکستان کو درپیش چیلنجز اورعالمی صورتحا ل کے پیش نظر ملکمیں سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہونا خوش آئند بات ہے۔ خبر یہ کہ سیاسی جماعت مسلم لیگ نون کے موجودہ قیادت نے ملک میں بیروزگاری، مہنگائی کے خلاف تحریک چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس سلسلے میں مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز سمیت دیگر قائدین اپنے سیاسی حریف ”چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری، سابق صدرآصف علی زرداری“ کی طرف سے افطار پارٹی میں شرکت کے دوران کئی اہم فیصلے کرچکی ہیں۔دوسری جانب یہ سیاسی اتحاد کب تک چلے گا۔قبل ازوقت کچھ نہیں کہا جاسکتا۔تاریخی گواہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگی قیادت کی سوچ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

دوسری جانب موجودہ مشکل دورمیں بھی پیپلزپارٹی قیادت نے ابھی تک کوئی غیر اخلاقی حرکت نہیں کی جس سے کسی قومی ادارے یا اس سربراہ کی کردارکشی کی گئی ہویاجمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق ہوسکے۔ لیکن میڈیا پر خبریں اور شہریوں میں سے افواہیں عام ہیں کہ مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نوازنے جب سے خاموشی توڑی ہے اس دن سے مسلم لیگ ن کی قیادت دوحصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ وفاق میں مریم نواز،صوبہ پنجاب میں حمزہ شہبازشریف گروپ متحرک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قومی اداروں کے سربراہ کی میڈیا،سوشل میڈیا سمیت دیگر طریقوں سے کردارکشی کا سلسلے شروع ہوچکا ہے۔پاکستان میں یہ تحریک اور اتحادحکومت کے خلاف اس وقت قائم ہوا ہے جب امریکہ ایران پرحملہ کرنے کی بھرپورتیاری کرچکا ہے اور بھارت میں بی جے پی الیکشن میں اکثریت سے کامیابی حاصل کرچکی ہے۔خطے کی بدلتی صورتحال سے پاکستان کو معیشت،سکیورٹی سمیت دیگر بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔

خطے کے امن کی صورتحا ل پر غور کریں تو عالمی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن کو یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہئے کہ عراق کے شکست خوردہ سابق صدر صدام حسین نے امریکہ کی دھمکیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ امریکا انہیں برابر دھمکی دے رہا تھا کہ اگر انہوں نے کویت سے انخلا نہ کیا تو امریکا ان کے خلاف تباہ کن جنگ چھیڑ دے گا۔ صدام حسین کو آخری انتباہ عراق پر فضائی حملے سے چند روز قبل سوئٹزرلینڈ میں عراقی وزیر خارجہ طارق عزیز اور امریکی وزیر خارجہ جیمس بیکر کی ملاقات پر کیا گیا تھا۔ اس وقت کویت پر عراق کے ناجائز قبضے کو 5 ماہ ہو چکے تھے اور عراقی صدر کو پے در پے متعدد بار نتائج سے خبردار کیا جا چکا تھا۔

عرب میڈیا پرجاری تبصروں میں مزیدکہا گیا ہے کہ ایران کا منظر نامہ بھی اس سے ملتا جلتا ہی ہے۔ ایران کو امریکا کئی بار خبردار کر چکا ہے کہ اگر جنگ چھڑ گئی تو تباہ کن ہو گی۔ امریکا یہ بات تو دہراتا رہتا ہے کہ وہ ایران سے جنگ نہیں چاہتا تا ہم عملی طور پر وہ ایران کو جنگ کی طرف ہی دھکیل رہا ہے۔ امریکا کی اقتصادی پابندیوں نے ایرانی نظام کو تھکا ڈالا ہے۔ یہ پابندیاں ممکن ہے ایک گولی چلائے بغیر ہی ایرانی نظام کا دھڑن تختہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ ویسے ایران بھی امریکا سے جنگ نہیں چاہتا اسے پتہ ہے کہ جنگ چھڑی تو اسے تباہ کر دیا جائے گا۔ ایران ناکہ بندی ختم کرانے کیلئے طاقت کے استعمال کی دھمکی کا کھیل کھیل رہا ہے۔

یہ بات بھی ہمیں یاد رکھنا ہو گی کہ امریکا بھیانک عسکری طاقت ہے اس کی مثال ہاتھی جیسی ہے جو اپنے قدموں تلے آنے والی گھاس کو بن دیکھے روند ڈالتا ہے۔ کشمکش کے علاقوں میں قابل علاج زخم لگتے ہیں۔ نیا منظر نامہ مختلف ہے۔ ایرانی نظام کو وہی مار لگ سکتی ہے جو دو جنگوں میں صدام حسین کو لگی تھی۔ تباہی اور پھر مکمل بربادی۔ ایران کو وہی چوٹ لگ سکتی ہے جو طالبان کو لگی۔ طالبان کو ستمبر کے طیارہ حملوں کے بعد کابل سے بیدخلی کی صورت میں لگی تھی۔

ایران کا نظام مختلف ہے۔ یہ مذہبی، انقلابی اور انتہا پسندانہ نظریات کے مرض میں مبتلا ہے۔ امریکا اس کی اصلاح کے لیے ڈرانے دھمکانے اور سمجھانے کے لئے جتنی تدابیر استعمال کر سکتا تھا کر چکا ہے۔ امریکا کے سارے وسائل ناکام ہو چکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب فیصلے کی گھڑی آ چکی ہے۔ اس احساس کا باعث یہ بھی ہے کہ عراق میں صدام، لیبیا میں قذافی اور سوڈان میں عمر البشیر جیسے شر پسند حکمرانوں سے چھٹکارا حاصل کر لیا گیا ہے۔ شام میں بشار الاسد کا نظام بھی کمزور کر دیا گیا ہے۔

عالمی صورتحا ل کے پیش نظر پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہونا خوش آئند بات ہے لیکن ملکی اداروں اور ان کے سربراہان کے خلاف مہم جوئی قابل مذمت ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ قیادت کو اپنی فیصلوں پر نظرثانی کرنی چاہئے، عدلیہ سمیت تمام اداروں کی بہتری کے لیے کرداراداکرناچاہئے۔نہ امریکہ سمیت سلام دشمن قوتوں کو عراق، لیبیا، سوڈان،شام کی طرح پاکستان پر حملہ کرنے کا موقع دیا جائے۔ ملک دشمن عناصر کو پیغام دینے کیلئے امریکہ ایران کشیدگی سے پاکستا ن کو درپیش چیلنجزکو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کریں۔

Ghulam Murtaza Bajwa

Ghulam Murtaza Bajwa

تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ