تہران (جیوڈیسک) امریکا نے ایران سے درپیش ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے اپنے لڑاکا طیارے اور طیارہ بردار بحری بیڑے کو مشرقِ اوسط میں بھیجا ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے خلاف تند وتیز بیانات جاری کر رہے ہیں جبکہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا ان جنگی تیاریوں کے برعکس کہنا ہے کہ امریکا کے ساتھ تو ان کی کوئی جنگ نہیں ہونے جارہی ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر کی ویب سائٹ کے مطابق انھوں نے منگل کے روز ایک تقریر میں کہا کہ ایران اور امریکا کے درمیان آمنا سامنا کسی فوجی مڈ بھیڑ کے بجائے دراصل عزم کا امتحان ہے۔
انھوں نے کہا:’’ یہ ٹاکرا کوئی فوجی نہیں کیونکہ کوئی جنگ تو ہو نہیں رہی ہے۔ نہ تو ہم اور نہ وہ ( امریکی) جنگ چاہتے ہیں۔وہ اس کو بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ یہ جنگ ان کے مفاد میں نہیں ہوگی‘‘۔آیت اللہ علی خامنہ ای نے منگل کے روز اسی مضمون کی ایک ٹویٹ بھی کی ہے اور اس میں کہا ہے کہ امریکا کے خلاف ایران کے پاس یقینی آپشن مزاحمت ہی کا ہے۔
انھوں نے لکھا ہے کہ ’’ اس محاذ آرائی میں امریکا ہی کو دستبردار ہونا پڑے گا۔یہ کوئی فوجی محاذ آرائی نہیں کیونکہ کوئی جنگ نہیں ہو رہی ۔ نہ تو ہم جنگ چاہتے ہیں اور نہ وہ چاہتے ہیں۔ وہ اس بات کو جانتے ہیں کہ جنگ ان کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوگی‘‘۔
ایران اور امریکا کے درمیان اس وقت سخت کشیدگی پائی جارہی ہے اور امریکا نے ایران کی کسی ممکنہ اشتعال انگیزی سے نمٹنے کے لیے اپنا ایک طیارہ بردار بحری بیڑا اور بی 52 بمباروں سمیت مزید لڑاکا طیارے مشرقِ اوسط میں بھیج دیے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ روز ہی خبردار کیا تھا کہ اگر ایران نے امریکی مفادات کو ہدف بنانے کی کوشش کی تو اس کو ’’بھاری خمیازہ ‘‘بھگتنا پڑے گا۔