سمجھ نہیں آرہاہے کہ بے شمار لوگ امریکا اور ایران کی جنگ کے لئے کیوں پَرتول رہے ہیں؟ایسا کیوں ہے ؟شائد اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حقائق آنکھ اور عقل کے پردوں سے اُجھل ہیں ۔جو ابھی تک سامنے نہیں آئے ہیں ۔یادیدہ دانستہ نہیں لائے جارہے۔ اَب اِس سارے معاملے میں کچھ بھی ہے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ کچھ سمجھ آنے لگاہے کہ معاملہ ایساہے کہ جیسے ”ڈانٹ ڈپٹ“ کسی کو کی جاتی ہے مگر ڈرایا دھمکایاکسی کو جاتا ہے۔
بہر حال، امریکا اور ایران کے درمیان جنگ کا تودور، دورتک کوئی اِتنا خاص امکان نہیں ہے جتناکہ واویلا کیا جارہاہے۔ البتہ، خطے میں جنگ کیسی صُورتِ حال پیدا کرکے کسی دوسرے کو اپنی گرفت میں کرکے اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے کی سازش ضرور تیار ہے۔
یکدم ایسے ہی جیسے نائن الیون کے بعد جنوبی ایشیا کے خطے کے ایک مُلک کا سُپر طاقت کہلانے والے مگر اصل میں دہشت گردِ اعظم امریکا نے اپنی جنگ کا حصہ بنا کر اِس مُلک کی معاشی ، اقتصادی ، سیاسی اور خودمختاری کا بیڑاغرق کرکے رکھ دیا ہے۔ امریکا ایران جنگ کے بہانے پھر ایسی ہی ایک اور گھناونی سازش تیار کی گئی ہے۔ مگر اُمید ہے کہ اِس مرتبہ اِن شیطان کے چیلوں کوضرور مایوسی کے سِواکچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
آج کا اِنسان دوسرے پر سبقت لے جانے کے چکر میں زبانی گولہ باری سے ایٹمی میزائلوں کی جنگ تک پہنچ کر سمجھ رہا ہے کہ اِس طرح اِس کی جیت ہو گی جو کہ صریحاََ غلط ہے۔بڑادُکھ ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ کیسے آ ج کا اِنسان اپنی اَنا کی اُوٹ سے داداگیری کا مرتکب ہوتاجارہاہے۔ لیکن وہ طاقت کے نشے میں مست ہاتھی بن کر یہ بھی بھول جاتاہے کہ یہ کیسے درناک اور بھیانک جرم کا ارتکاب کررہاہے؛
افسوس ہے کہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کہ اِس کا یہ عمل رہتی دنیا تک مُلک و معاشرے اور تہذیب وثقافت کے لئے سیاہ دبہ بن رہاہے۔ مگرپھر بھی بلاخوف و خطر اپنے غلط فعل کو بھی درست گردانتے ہوئے تمام حدپارکرتاجارہاہے ۔گندگی کی دبیز تہہ میں لپٹی اپنی خوف ناک کامیابیوں کے پیچھے دوڑنافخر سمجھتاہے۔ ایسی بدبودار اور مکروہ وغلاظت کی سوچ سے بھرے بہت سے ممالک (جیسے دہشت گردِ اعظم امریکا، اسرائیل اور بھارت) کے حکمران الوقت اور اِن کے حواری ا و رچیلے چانٹے ہیں۔ جنہوں نے دنیا میں اپنی داداگیری قائم کرنے کے لئے بلا کی بدمعاشی اور غنڈہ گردی مچارکھی ہے۔آج جن کی طرح طرح کی ہٹ دھرمیوں کی وجہ سے دنیا تیسری ( فانی الدنیا یعنی کہ ختم الدنیا کی آخری) ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچ چکی ہے ۔اَب بس صرف اِنتظار اِتنا سا ہے کہ کسی کی جانب سے دیدہ دانستہ یا غلطی سے ایٹم بم کا بٹن دب جائے؛ تو پھر دنیا میں ہر طرف آگ کا جنگل اور خون کی ندیاں ہوگیں۔پھراِنسان اور چرند وپرند سب قصہ ¾ پارینہ بن جائیں گے۔
بیشک ایٹمی جنگ میں سِوائے ایٹم بم کی فتح کے ہر کسی کے دامن میں ندامت اور کفِ افسوس کی کالک کے کچھ نہیں ہوگا۔ مگر اِس کے باوجود بھی اِس حقیقت سے بھی کسی کو اِنکار نہیں ہے جیسا کہ جین ڈیفنس کنسلٹنسی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ2019ءمیں عالمی سطح پر دفاعی اخراجات 1.8 ٹریلین ڈالرز تک جاپہنچے ہیں؛ ساتھ ہی رپورٹ میں وثوق سے اِس کا تذکرہ بھی کیا گیاہے کہ یورپی مارکیٹس میں نمو میں اضافے کی وجہ سے دفاعی اخراجات تجاوز کرگئے ہیں۔ جبکہ 2018ءمیں دفاعی شعبے میں اخراجات 6فیصدسے کم ہوکرایک فیصدہوگئے تھے۔
اگرچہ دنیا کے کئی حصوں میں شرح نمومیں سست روی دیکھی گئی ۔لیکن یورپ میں شرح نمومیں نمایاں اضافہ دیکھا گیا؛اور اِس میں 5.2فیصدکا اضافہ ہوا، کئی ابھرتی مارکیٹس بھی اِس دوڑ میں پیچھے رہ گئیں؛ دنیا میں سب سے زیادہ کئے جانے والے 10بڑے دفاعی اخراجات میں سے 6یورپ میں ہوئے۔ جن میں بلغاریہ بھی شامل ہے۔
رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ ” دس بڑے ممالک میں جو چھ یورپی ممالک شامل ہیں۔ اِن میں بالخصوص امریکا سرفہرست جبکہ چین کا دوسرا نمبر ہے ۔جہاں شرح نمو نے عالمی سطح پر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا؛ اور یہی وجہ ہے کہ مُلک نے دفاعی اخراجات کی مد میں 125 فیصد اضافہ کیا؛ اور اگست کے مہینے میں بلاک 70ٹائپ کے 8ایف سولہ طیاروں کی خرایداری کے لئے ادائیگی کی“ ۔
تاہم اِس منظر میں افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہاہے کہ یہ وہ رپورٹ ہے؛ جو دنیا میں امن کے خواہشمندوں کے لئے تشویش ناک اور مایوس کُن ہے۔جن کے نزدیک چند جنگی جنون میں مبتلا سُپر طاقتوں کی وجہ سے عالمی منڈی میں اجناس سے زیادہ عالمی سطح پر دفاعی اخراجات میں اضافہ ہواہے۔ جبکہ انسانیت کی بقا ءاور سلامتی اور خوشحالی کے لئے ایٹمی ہتھیاروں کی ذخیرہ اندوزی کی بجائے۔آج اگر ساری دنیا متحد ہوکر اجناس کی پیداوارکو بڑھانے کے لئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے؛ تو دنیا سے غربت اور بدحالی کا خاتمہ یقینی بنایا جاسکتاہے ۔ آج دُکھ کی بات یہ ہے کہ دنیا میں اچھی خاصی بڑی تعداد میں اِنسان تو بھوک سے مررہے ہیں۔مگر سُپر طاقتیں مہلک جنگی ہتھیاروں کی تیاری کی ریس میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے چکر میں ساری دنیا کو اپنی منڈی بنا کر دنیا کو فانی الدنیا کی دہلیز پر لے آئے ہیں۔اَب لگتاہے کہ بہت جلداِنسانوں کی زبانی گولہ باری کی بجائے؛ مہلک ایٹمی میزائیلوں اور بموں سے گھسمان کا رن چھیڑے گا؛ اور بس سب کچھ قصہ ءپارینہ بن جائے گا۔