وائٹ ہاؤس (جیوڈیسک) صدر براک اوباما نے دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑائی میں عراقی سکیورٹی فورسز کی قوت بڑھانے کے لیے عراق میں مزید 1500 غیر جنگجو فوجی بھیجنے کی منظوری دی ہے۔ امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ یہ فوجی عراقی فورسز کو تربیت دیں گے اور ان کی معاونت کریں گے۔
پینٹاگون نے مزید کہا کہ صدر براک اوباما نے عراق میں مزید فوج بھیجنے کا فیصلہ عراق کی حکومت کی درخواست پر کیا گیا۔ خیال رہے کہ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے عراق اور شام کے وسیع علاقے پر اپنا کنٹرول قائم کیا ہے۔ پینٹاگون کی طرف سے جاری امریکی فوجی عراق میں کئی سینٹر قائم کریں گے جہاں عراقی فوج کے نو اور کرد پیشمرگاہ کے تین بریگیڈ کو تربیت دے جائے گی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی فوج بغداد اور اربیل سے باہر عراقی فورسز کو ’مشورے اور معاونت دینے کے لیے دو سینٹر‘ بھی قائم کرے گی۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ کا کہنا ہے کہ امریکی فوج جنگ میں حصہ نہیں لیں گے لیکن وہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑائی میں عراقی فورسز کو مدد فراہم کرنے اچھی پوزیشن میں ہوگی۔
انھوں نے مزید کہا کہ وائٹ ہاؤس شام اور عراق میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف آپریشنز کے لیے کانگریس سے 5.6 ارب امریکی ڈالر کی رقم بھی مانگے گی۔ عراق کو دولت اسلامیہ کے خلاف جاری جنگ میں مدد کرنے کے لیے برطانوی حکومت نے بھی اپنے فوجی ماہرین کو دوبارہ عراق بھیجنے کا کہا ہے۔
آئندہ چند ہفتوں میں تربیت دینے والے فوجیوں کو عراق کے دارالحکومت بغداد بھیجا جائے گا جہاں وہ تربیتی کام کا آغاز کریں گے۔ گذشتہ دنوں برطانوی وزیر دفاع مائیکل فیلون نے کہا تھا کہ یہ مشن عراقی فوج کی تربیت تک ہی محدود رہے گا اور عراقی لڑاکا دستوں کی جنگ میں قیادت نہیں کرے گا۔
صدام حسین کو شکست دینے کے مشن کے آٹھ سال بعد برطانوی افواج کو عراق سے سنہ 2011 میں واپس برطانیہ بلایا گیا تھا۔ عراق کے نئے وزیر اعظم حیدر العبادی پر شمالی اور مغربی علاقوں میں اپنی عملداری بحال کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ برطانیہ کی طرف سے فوجی امداد رابطہ کاروں اور ماہرین کی صورت میں فراہم کی جائے گی جو عراقی فوجیوں کو سڑک کے کنارے نصب بموں کو ناکارہ بنانے کے طریقے سکھائیں گے۔