واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی صدر براک اوباما اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نتین یاہو نے، جن کے آپسی تعلقات تلخ سے رہے ہیں، بدھ کے روز کہا ہے کہ دونوں ملک ’’اٹوٹ بندھن‘‘ میں بندھے ہوئے ہیں۔
دونوں رہنماؤں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ملاقات کی، جو شاید اُن کی آخری ملاقات ہو، چونکہ اوباما اپنے عہدے کی میعاد مکمل کرنے والے ہیں، جب کہ مشرق وسطیٰ امن تصفیہ ہمیشہ کی طرح مبہم ہے۔
نیتن یاہو نے کہا کہ یہودی ملک کا ’’متحدہ ریاست ہائے امریکہ جیسا کوئی اور دوست نہیں‘‘۔
دس برس کے حالیہ امریکی سمجھوتے پر اُنھوں نے اوباما کا شکریہ ادا کیا، جس کے تحت اسرائیل کو فوجی اعانت کے پیکیج میں 38 ارب ڈالر فراہم ہوں گے، جو امریکہ کی جانب سے کسی غیر ملک کو دی جانے والی سب سے بڑی فوجی امداد پر مبنی معاہدہ ہے۔
اوباما نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ امریکہ کا رابطہ ’’مشترکہ اقدار کی بنیاد پر، خاندان کے مراسم کی طرح ہے، چونکہ ہم اس یہودی ملک کو اپنا سب سے اہم ترین اتحادی تسلیم کرتے ہیں‘‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ امریکہ نے وسیع تر فوجی امداد کے اس منصوبے سے اس لیے اتفاق کیا چونکہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ یہ بات یقینی بنائیں کہ اسرائیل کو پوری صلاحیت میسر ہو جو اسرائیلی عوام کو محفوظ بنانے کے لیے درکار ہے‘‘۔
تاہم، اوباما نے یہ بھی کہا کہ امریکہ کو ’’بستیوں کی تعمیر کے سلسلے میں کچھ تشویش ہے‘‘، چونکہ اسرائیلی حکومت نے مقبوضہ علاقوں میں بستیوں کی تعمیر جاری رکھے ہوئے ہے، جن گھروں کی تعمیر، امریکہ کے خیال میں، فلسطینی ریاست تشکیل دینے کے امکانات کی راہ میں اور امن سمجھوتے تک پہنچنے کی صلاحیت میں رکاوٹ کا باعث بن سکتی ہے۔
تاہم، امریکی سربراہ نے کہا کہ ’’یہ بات اہم ہے کہ ایک مستحکم اور محفوظ اسرائیل کی حمایت کی جائے، جس کے اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن پر مبنی تعلقات ہوں‘‘۔