امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا میں آج تک کبھی کوئی یہودی سیاستدان صدر نہیں بنا۔ ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار بننے کے خواہش مند سینیٹر برنی سینڈرز اور ارب پتی بزنس مین بلومبرگ دونوں میں سے کوئی جیت گیا، تو امریکا میں پہلی بار ایسا بھی ہو جائے گا۔
ترقی پسند اور روشن خیال سیاسی اقدار کے حامی اور امریکی سینیٹ کے ڈیموکریٹ رکن برنی سینڈرز اسی سال ہونے والے صدارتی الیکشن میں اپنی پارٹی کے امیدوار بننے کے خواہش مند ہیں۔ وہ اب تک اس دوڑ میں شامل باقی تمام سیاستدانوں سے آگے ہیں۔
برنی سینڈرز کے علاوہ ارب پتی بزنس مین مائیکل بلومبرگ بھی صدارتی انتخابی دوڑ میں ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے اپنی بطور امیدوار نامزدگی کی خواہش رکھتے ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے اگر ان دونوں میں سے ہی کسی کو اپنا انتخابی امیدوار بنایا، تو پھر اس کا مقابلہ ریپبلکن پارٹی کے امیدوار اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ہو گا، جو اپنے دوبارہ انتخاب کے خواہش مند ہیں۔
برنی سینڈرز کی عمر اس وقت 78 برس ہے اور مائیکل بلومبرگ بھی بالکل اتنی ہی عمر کے ہیں۔ ان دونوں ڈیموکریٹ سیاستدانوں کی سیاسی سوچ کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو ان میں ایک ہی سیاسی جماعت کے ارکان ہونے کے باوجود کئی طرح کا فرق بھی موجود ہے۔ لیکن سینڈرز اور بلومبرگ میں ایک قدر مشترک ایسی بھی ہے، جس کی وجہ سے ان دونوں کو ایک دوسرے کے بہت قریب بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
وہ قدر مشرک یہ ہے کہ مذہبی حوالے سے یہ دونوں امریکی سیاستدان یہودی ہیں۔ امریکا کی تاریخ میں آج تک ایسا کبھی نہیں ہو سکا کہ صدارتی الیکشن میں کسی ایسے رہنما کو منتخب کیا گیا ہو، جو یہودی ہو۔ لیکن برنی سینڈرز اور مائیکل بلومبرگ کی کوشش یہ ہے کہ اس مرتبہ ایسا بھی ہو ہی جانا چاہیے۔
اس کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کو ان دونوں میں سے کسی ایک کو اپنا صدارتی امیدوار بنانا ہو گا اور پھر اس امیدوار کے لیے لازمی ہو گا کہ وہ ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب کا راستہ روکتے ہوئے اتنی زیادہ عوامی تائید حاصل کر لے کہ امریکا کو ایک بار پھر ایک ڈیموکریٹ صدر مل جائے اور تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک یہودی صدر بھی۔
ناقدین کی رائے میں ان دونوں سیاستدانوں کی بہت سی مثبت خصوصیات کے ساتھ ساتھ چند ایک خامیاں بھی ہیں۔ ان کے ناقد ان کے سیاسی قد کاٹھ پر یہ کہہ کر تنقید کرتے ہیں کہ مثلاﹰ برنی سینڈرز ایک ڈیموکریٹ ہونے کے باوجود دراصل ایک ڈیموکریٹ سوشلسٹ ہیں۔
دوسری طرف مائیکل بلومبرگ کے مخالفین ان کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اس ارب پتی رہنما نے دراصل اپنی دولت کے بل بوتے پر ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدواری کی دوڑ میں اپنے لیے جگہ ‘خریدی‘ ہے۔
برنی سینڈرز خود کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ یہودیوں کی ایک ریاست کے طور پر اسرائیل کی حمایت تو کرتے ہیں مگر وہ اسرائیل کی ان پالیسیوں کے بھی خلاف ہیں، جو فلسطینیوں کے مصائب میں اضافہ کرتی ہیں۔ اپنے ایک حالیہ سیاسی مباحثے میں تو برنی سینڈرز نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو پر شدید تنقید کرتے ہوئے انہیں ایک ‘رجعت پسند نسل پرست‘ بھی قرار دے دیا تھا۔
سینڈرز کے برعکس مائیکل بلومبرگ کو امریکا میں ایک اعتدال پسند اور میانہ روی کا قائل سیاستدان سمجھا جاتا ہے اور وہ اسرائیل اور نیتن یاہو جیسے رہنماؤں پر اس طرح تنقید بھی نہیں کرتے جیسے کہ برنی سینڈرز۔
جنوری میں کرائے گئے ایک گیلپ سروے کے نتائج کے مطابق امریکا کے یہودی ووٹروں میں سے دو تہائی سے زائد ریپبلکن صدر ٹرمپ کے خلاف ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی بھی یہودی صدارتی امیدوار آسانی سے امریکی صدارتی الیکشن جیت سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ انتخابی فیصلہ امریکا کے تمام ووٹر مل کر کریں گے اور اس ملک میں یہودی ایک مذہبی اقلیت ہیں جبکہ اکثریتی آبادی مسیحی باشندوں کی ہے۔
پھر بھی کیا امریکا میں اس سال پہلی مرتبہ کسی یہودی سیاستدان کو صدر منتخب کر لیا جائے گا، ایسے کسی ممکنہ انتخابی نتیجے سے پہلے یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی اپنا صدارتی امیدوار بناتی کس کو ہے: برنی سینڈرز اور مائیکل بلومبرگ میں سے کسی ایک کو یا پھر کسی تیسرے لیکن مسیحی عقیدے کے حامل سیاستدان کو۔