امریکا جھوٹ بول کر اپنی کارکردگی سے توجہ ہٹا رہا ہے، چین

 Donald Trump and Xi Jinping

Donald Trump and Xi Jinping

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) چین نے کہا ہے کہ امریکی سیاست دانوں نے بارہا کورونا کے خطرات کو نظر انداز کیا اور اب ڈھٹائی سے جھوٹ بول کر اپنی خراب کارکردگی سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

منگل کو چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ چین پر امریکا کی تنقید کا صرف ایک مقصد ہے کہ خود کو کسی ذمہ داری سے بری الزمہ کر کے اپنی خراب کارکردگی سے لوگوں کی توجہ ہٹائی جائے۔

پیر کو امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہیں کورونا وبا کی روک تھام کے حوالے سے بیجنگ حکومت کے کردار پر تحفظات ہیں۔ صدر ٹرمپ کا موقف ہے کہ اگر چین اس وبا سے بہتر انداز میں نمٹتا تو باقی وائرس دنیا تک نہ پھیلتا۔ صدر ٹرمپ نے مزید کہا تھا کہ ان کا ملک چین سے معاشی نقصانات کے ضمن میں خاطر خواہ معاوضہ ادا کرنے کا مطالبہ کرے گا۔

کورونا وائرس: امریکا میں متاثرین کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز

امریکا میں صدر ٹرمپ پر تنقید ہوتی رہی ہے کہ وہ دو ماہ پہلے تک کورونا کے بحران سے انکاری رہے اور اس وقت حرکت میں آنا دکھائی دیے جب حالات کافی تیزی سے بگڑ رہے تھے۔

منگل کو چینی حکومت کے ترجمان نے کہا کہ امریکی سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ الزام تراشی کی بجائے ‘اپنے داخلی مسائل پر توجہ دیں تاکہ اس وبا پر جلد سے جلد قابو پایا جا سکے‘۔

اس سے قبل امریکی ریاستوں میسوری اور مسیسیپی نے چین کی حکومت پر الزام عائد کیا کہ اس نے جان بوجھ کر اس وبا سے متعلق حقائق چھپائے۔ ان دونوں ریاستوں نے چین کے خلاف قانونی چارہ گوئی کے لیے امریکی سینٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔

کورونا وائرس کی نئی قسم ‘کووڈ انیس‘ نے پانچ ماہ قبل چین کے شہر ووہان میں سر اٹھایا تھا۔ پچھلے دو ماہ میں اس وبا نے دنیا میں بھونچال پیدا کر رکھا ہے۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں اور متاثرہ کیسز امریکا میں سامنے آئے ہیں۔

امریکا اور آسٹریلیا کا کہنا ہے کہ اس بات کی چھان بین ہونی چاہیے کہ یہ وبا چین سے نکل کر پوری دنیا میں کیسے پھیلی۔

آسٹریلیا میں تعینات چین کے سفیر نے ایک حالیہ بیان میں وہاں کی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس طرح کی کسی انکوائری پر زور دیا گیا تو چین کے عوام آسٹریلوی درآمدات کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں۔

منگل کو چین کی وزارت خارجہ نے اس دھمکی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ آسٹریلیا کی طرف سے حالیہ بیانات پر چین کے لوگوں میں بے چینی ہے اور اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔