تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم آج یقینا امریکی ریاست شمالی کیرولینا (چیپل ہل) میں تین مسلمان طلباء شادی براکات، اِن کی اہلیہ یوسر محمد اور یوسر محمد کی بہن راز ان کا اپنے مذہب مخالف پڑوسی کے ہاتھوں لرزہ خیزاور بیہمانہ قتل کے پیش آئے واقعے نے سیکڑوں سوالات پیدا کر دیئے ہیں اور عالمِ اِنسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیاہے جہاں یہ کچھ ہواہے تو وہیں امریکا میں پیش آئے تین نہتے مسلمانوں کے قتل نے امریکی صدر بارک اوباما اور دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں خود دہشت گردی کو پھیلانے والی امریکی انتظامیہ اور فوج کے قول وفعل پربھی نہ صرف سوالیہ نشان لگا دیا ہے بلکہ امریکا میں تین معصوم مسلمانوں کے بہیمانہ قتل نے اُن سارے امریکیوں کے چہروں پر بھی سیاہی مل دی ہے جو دنیا سے مذہبی نفرت اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے تو خوہاں ہیں مگر افسوس ہے کہ آج ایک ایسا ہی دردناک واقعہ خود امریکی ریاست کیرولینا میں بھی پیش آ گیا ہے۔
اَب یہاںیہ سوال جنم لیتاہے کہ کیا امریکی صدراور امریکی انتظامیہ اپنے اِس قاتل شہری کے خلاف بھی ویسی ہی سزامنتخب کرے گی آج جیسی سزاامریکی انتظامیہ دنیا کے دیگرممالک کے دہشت گردوں کے خلاف کرنے اور کرانے کا اعلان کرتی آئی ہے…؟؟ یہاں ہم سمجھتے ہیں کہ دنیاکے کسی بھی کونے میں کسی بھی مذہب اور زبان وسرحداور رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے کسی بھی اِنسان کا قتل ہو…؟؟وہ عالمِ انسانیت کے لئے دُکھ کا باعث ہوتاہے…آج قاتل کے لئے سزائیںتجویز کرنے والوں (امریکیوں )کو مذہب اور سرحدکی قید نہیں کرنی چاہے …بس اِن میں اِنسان اور اِنسانیت کے احترام کا جذبہ مزین ہوناچاہئے …کیا اَب ایسے میں اپنے یہاں ہونے والے تین معصوم مسلمانوں کے قتل کے خلاف امریکی انتظامیہ اور امریکی صدرنے کوئی نوٹس لیا ہے…؟؟اور اگرلیاہے اور اپنے قاتل شہری کے لئے کسی قسم کی سزاکا کوئی اعلان کیا ہے تو یہ اَب تک دنیاکے سامنے کیوں نہیں لایاگیاہے..؟؟اِس امریکی رویئے پر تشویش ہے۔
آج امریکا میں تین مسلمانوں کے قتل کے واقعے کو پیش آئے ایک ہفتہ گزر چکاہے مگر افسوس ہے کہ اِن سطورکے رقم کرنے تک ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی صدر اور امریکی انتظامیہ کی جانب سے کچھ ایساہوتاہواسامنے نہیں آیا ہے کہ یہ تسلی ہوسکے کہ امریکی انتظامیہ نے اِس معاملے میں غیرجانبداری کا مظاہرہ کیاہے اور اپنے اُس امریکی شہری جس نے اپنے تین مسلمان پڑوسیوں کو محض اِس بنیاد پر قتل (شہید)کردیاہے کہ وہ اللہ کا نام لیواتھے دین اسلام کی تبلیغ کیاکرتے تھے جن کے اِس عمل سے قاتل کو تکلیف پہنچاکرتی تھی اور بالآخر ایک روز اِس دہشت گرد امریکی شہری نے اپنے تین مسلمان پڑوسیوں کو قاتل دیا۔ اگرچہ آج امریکی صدربارک اوباما اور اِن کی انتظامیہ کی سر توڑ کوشش یہ ہے کہ اِس واقعے کی ہوااُمتِ مسلمہ تک نہ پہنچنے پائے ورنہ امریکا کی بالخصوص اسلامی ممالک میں دہشت گردی کے خلاف چلائی جانے والی مہم جوئی متاثرہوسکتی ہے اور سارے عالمِ اسلام کی تنقیدوں کا رخ امریکی انتظامیہ کی جانب موڑدیاجائے گا سو اِس فکرمیں امریکی انتظامیہ اور امریکی صدرمبتلاہیں کہ اِس واقعے کو کسی بھی طرح دبادیاجائے اوراگرپھر بھی کہیں سے کوئی دباآئے تو اِس کے جواب میں اپنے شہری کو ذراسی ہلکی پھلکی سزادے کر اُمتِ مسلمہ کو خوش کردیاجائے مگربھرپورکوشش یہی کی جائے کہ کسی بھی طرح اپنے شہری کو پھانسی کے پھندے سے بچایا جائے۔
Muslim Students killer
جبکہ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ امریکا میں پیش آئے اِس واقعے پر امریکی انتظامیہ کے ٹوکروں پر پلنے اور عیش کرنے والی مُسلم اُمہ بھی بھنگ پی کر ٹُن پڑی ہوئے ہے اِس جانب کسی بھی توجہ نہیںہے جس میںہمارے مُلک پاکستان کے حکمران اور ہماری بڑی چھوٹی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے لیڈران بھی شامل ہیں اَب تک تو کسی نے بھی امریکا میں امریکی دہشت گرد شہری کے ہاتھوں تین مسلمانوں کے قتل (شہادت) کے پیش آئے واقعے کے خلاف اپنے لب نہیں ہلائے اور اپنی زبان سے ایک لفظ بھی مذمت اور تشویش کا نہیں نکلاہے حالانکہ آج اِس واقعے کی خبرسب کو ہے۔
ہاں البتہ…!!دوحا سے خبرراساں ایجنسی اے ایف پی نے یہ اطلاع دی ہے کہ پچھلے دِنوں امریکی ریاست شمالی کیرولینا میں تین مسلمان طلباءکے بیہمانہ قتل کے خلاف قطرکے دارالحکومت دوحامیں سیکڑوں افرادنے احتجاجی ریلی نکالی،(یہ احتجاجی مارچ قطر میں بڑے مظاہروں میں سے ایک تھا) مظاہرین نے واقعہ کو دہشتگردی اقراردیا، اُنہوں نے بینرزاُٹھارکھے تھے جن پر نعرے درج تھے کہ” نفرت کی بنیادپر ہونے والے جرائم کاخاتمہ کرو“ ہم سب کو نفرت سے پاک زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے“ اور وغیرہ وغیرہ قسم کے نعرے لکھے ہوئے تھے اور اِسی کے ساتھ ہی خبریہ بھی ہے کہ احتجاجی مظاہرین میں قطر میں مقیم امریکی سفیرشیل اسمتھ نے بھی شرکت کی واضح رہے کہ قطر کی تاریخ کا یہ بڑااحتجاجی مظاہرہ امریکی ریاست شمالی کیرولینا(چیپل ہل) میں تین مسلمان طلباءشادی براکات،اِن کی اہلیہ یوسرمحمداور یوسر محمدکی بہن رازان جنہیں اِن کے مذہب مخالف پڑوسی نے بہیمانہ طورپر قتل (شہید)کردیاتھاکے خلاف تھا۔
یہاں ہم ایک بار پھر امریکی انتظامیہ سمیت اپنے عالمِ اسلام کے مسلمان بھائیوں سے یہ سوال کرناچاہیں گے کہ کیا اِس واقعے میںذمہ داروں اورامریکی قاتل کو قرارواقعی سزاملے گی یا ہلکی پھلکی سزادے کر خاموشی اختیارکرلی جائے گی…؟؟اور امریکامیںپیش آئے اِس واقعے پر اُمتِ مسلمہ دنیابھر میںاپنا بھرپوراجتجاج کرنے کے بجائے امریکاسے امداداور بھیک کی صورت میں ڈالروصول کرکے خاموش بیٹھ کر اپنی عیاشیوں میں لگ جائے گی..؟؟یا ویساہی بھرپوراحتجاج کرے گی جیساکہ اکثروبیشتر امریکی صدراور امریکی انتظامیہ دنیاکے کسی بھی ملک کے کسی بھی کونے میں عیسائیوں اور یہیودیوں کے قتل کے خلاف ذمہ دار ممالک کے حکمرانوں اور اِن کی انتظامیہ سے کرتے ہیں …؟؟اور بسااوقات امریکیوں کا مطالبہ اِس حد تک بڑھ جاتاہے کہ یہ اِس سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں کہ اِن کے عیسائی اور یہیودی بھائیوں کے قاتلوں کو امریکاکے حوالے کیاجائے قاتل کو اِس کے اِس جرم کی سزاامریکااپنے مُلکی قوانین کے مطابق خود دے گااَب یہاں حالات اُمتِ مسلمہ سے یہی تقاضہ کرتے ہیں کہ یہ بھی امریکی سرزمین پہ امریکی دہشت گردشہری کے ہاتھوں قتل کئے گئے اپنے تین مسلمانوں کے قاتل( اور ذمہ داران) کو اپنے حوالے کرنے اور اِسے دہشت گردقاتل کو اسلامی قوانین کے مطابق سزادینے کا مطالبہ کرتی ہے یا نہیں…؟؟اَب یہ امتحان مُسلمہ اُمہ کا ہے دیکھتے ہیں کہ یہ اِس میں کتناپورااُترتی ہے ..؟؟