تحریر : علی عمران شاہین ”تم ہمارے دس لوگ مارو ،ہم تمہارا ایک فرد ماریں گے، پھر دیکھیں گے کہ تم کب تک لڑتے ہو…؟ تم بہت جلد تھک جائو گے…” یہ الفاظ ہیں ،ویت نام کے ایک عظیم جنرل جیاپ کے، جو انہوں نے اپنے ملک پرحملہ آور فرانسیسیوں سے کہے تھے۔ پھر تاریخ نے دیکھا کہ ویت نامیوں نے فرانس کو شکست فاش سے دوچار کر دیا۔اسی ویت نامی قوم نے صرف ایک فرانس ہی کو شکست نہیں دی بلکہ اس کے بعد عصر حاضر کی سپرپاور امریکہ کو بھی عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔ امریکہ کی ویت نامی قوم کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کو اسی ماہ اپریل میں50سال مکمل ہو رہے ہیں۔ امریکہ کو شکست دینے والے جنرل جیاپ نے بھی اپنی زندگی کے 50سال ملک و قوم کی آزادی قائم رکھنے کے لئے جنگیں لڑیں۔
رواں ماہ اپریل کے آغاز پر امریکہ کے سیکرٹری دفاع آشٹن کارٹر نے واشنگٹن میں ویت نام جنگ کے 50 سال مکمل ہونے پر جنگ کی یادگار پر پھول چڑھائے تو امریکی میڈیا نے لکھنا شروع کر دیا کہ ویت نام جنگ تو امریکہ کیلئے اس قدر بھیانک رہی تھی کہ امریکہ میں اس کے آغاز کی تاریخ بھی متنازعہ ہو چکی ہے۔ریکارڈ کے مطابق ویت نام کی جنگ(یکم نومبر 1955ء تا 30 اپریل 1975) قریباً 19 برس، 5 ماہ، 4 ہفتے اور ایک دن جاری رہی۔یہ جنگ امریکی سامراج کے توسیع پسندانہ اور دہشت گردانہ کردار کا بھیانک رخ ہے۔ایک اندازے کے مطابق ویت نام کے عام ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد 20لاکھ تک ہے پھر بھی امریکہ کا اس وقت سے آج تک اصرار ہے کہ اسے عالمی انسانی حقوق کا سب سے بڑا چمپئن مانا جائے۔
اس جنگ سے خود امریکہ کو جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا وہ بھی تاریخی ہے۔ امریکہ کو 111 ارب ڈالر کا معاشی دھچکا پہنچا۔ اس کی بدولت امریکی بجٹ خسارے کا شکار ہو گیا۔جنگ میں 30لاکھ سے زائد امریکی سپاہیوں نے حصہ لیا جن میں سے 15لاکھ باقاعدہ جنگ میں شریک تھے۔جیمز ای ویسٹ ہیڈر لکھتا ہے”امریکی مداخلت کے دنوں میں 1968ء میں 543٫000امریکی سپاہی ویت نام میں تھے لیکن جنگ میں شریک سپاہی صرف 80٫000 ہی تھے۔”جنگ کے خاتمے تک ہلاک ہونے والے امریکی سپاہیوں کی تعداد 58٫220تک تھی، 150٫000 سے زائد زخمی تھے اور 21٫000ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے تھے۔
Nato Army
اس جنگ میں ہلاک ہونے والے امریکی سپاہیوں کی اوسط عمر 23 برس تھی۔ امریکہ ویت نام کے زخمیوں، ہلاک ہونے والوں کے ورثاء اور دیگر افراد و خا ندانوں کو آج بھی22ارب ڈالر سالانہ ادا کر رہا ہے۔امریکہ نے جنگ کے دوران کیمیائی مادے بھی بے محابا استعمال کیے۔ جس کے بارے ان کا کہنا تھا کہ وہ کیمیکل کا استعمال پودوں اور پتوں میں چھپے ہتھیاروں کو نمایاں کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔یہ کیمیکل ”ڈی فولینٹس” کہلاتے تھے۔ان کے ڈرم خاص رنگوں کے حامل ہو اکرتے تھے۔ یہ ایجنٹ پنک، ایجنٹ پرپل، ایجنٹ وائٹ اور سب سے خطرناک ایجنٹ اورنج اور ایجنٹ اورنج ڈائی اوکسن پر مشتمل ہوا کرتا تھا جو انسانوں کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔ یوں تقریباً ساڑھے چار کروڑ لیٹر کیمیکل چھڑکا گیا۔
1961ء سے 1962ء کے دوران امریکی صدر کینیڈی کی انتظامیہ نے حکم دیا کہ ویت نام کی چاول کی فصلوں کو تباہ کر دیا جائے۔امریکی فضائیہ نے 75٫700٫000 لٹر کیمیکل چھڑکا۔یہ کیمیکل ساٹھ لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی پر چھڑکا گیا۔ یوں 1965میں 42 فیصد تک اراضی اور کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا یا گیا۔ ان خطرناک کیمیکلز سے ہونے والی بیماریوں میںپراسٹیٹ کا سرطان،سانس کی نالیوں کا سرطان،ملٹی پل مائیلوما، شوگر، بی سیل لمفو ماس،سوفٹ ٹشو سارکوما،کلورا کین، پورفہائیرا کیوٹینا ٹارڈا،پیری فیرل نیورو پے تھی اور اسپینا بی فیڈا جیسی بیماریاں پھیلتی چلی گئیں،اس سے بچے خاص طور پر متاثر ہوئے۔
بیماریوں سے متا ثر ہونے والوں نے کیمیکل بنانے اور تقسیم کرنے والی کمپنیوں کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج جیک بی ونسٹائن نے کیس ڈسمس کر دیا۔اپیل کی کوشش کی گئی وہ بھی منظور نہ ہو سکی۔ویت نام کی حکومت کا کہنا ہے کہ امریکیوں کے کیمیکل استعمال کرنے کے نتیجے میں ویت نام کے متاثر ہونے والے شہریوں کی تعداد چالیس لاکھ سے زائد ہے۔سوال یہ ہے کہ اس تاریخ کا حامل کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے کوئی قدغن عائد کرنے کا عندیہ دے سکتا ہے؟۔
Vietnam War
ویت نام جنگ کے دوران امریکہ نے ویت نام پر70لاکھ بم برسائے۔ یہ تعداد دوسری جنگِ عظیم کے دوران گرائے جانے والے امریکی بموں سے دوگنا تھی،لیکن تمام تر جنگی مظالم و جرائم کے با وجود امریکی یہ جنگ نہ جیت سکے۔بلکہ ویت نام جنگ اب تک امریکی فوج،حکومت اور عوام سب کے لئے ایک بھیانک خواب ہے جس کا نم تک سن کر سب امریکی جاگتے ہوئے بھی ہڑبڑا اٹھتے ہیں۔ جنرل جیاپ کی قدیم چینی جنگی حکمت عملی ”سین زُو” کے طریقوں اور گوریلا جنگ کے طریقوں نے دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ جنگیں صرف اعلیٰ ٹیکنالوجی اور افرادی قوت سے نہیں جیتی جا سکتیں۔انہیں جیتنے کے لئے عزم ،حوصلہ، دلیری اور استقامت ہی اصل بنیاد ہے۔اپریل میں اگر ویت نام جنگ کے 50سال ہو رہے ہیں تو سال رواں 20مارچ کو عراق میں امریکی جنگ کے 13سال مکمل ہوئے تھے۔ امریکی صحافی رون پال نے اس حوالے سے 5اپریل کو لکھا کہ ویت نام جنگ کس طرح عراق جنگ میں ہمارے لئے ایک المیہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ صدر باراک اوباما نے بھی ریاست کی وہ ناکام پالیسی اپنا رکھی ہے جس کا انجام ہم مسلسل بھگت رہے ہیں۔ ہم نے عراق میں 5 ہزار جانیں گنوائیں، 10لاکھ سے زائد عراقی مارے گئے، بے تحاشا مالی تباہی کا سامنا کیا اور کہا جا رہا ہے کہ اب ہم دوبارہ عراق فوج بھیجیں گے، نظر یہی آ رہا ہے کہ ہم نے کسی واقعہ سے کچھ نہیں سیکھا۔ امریکہ کے اپنے ملک کو محفوظ بنانے کے نام پر اتنی مار دھاڑ، قتل و غارت گری اورویت نام سے کہیں زیادہ بارود برسانے کے بعد حالت زار یہ ہے کہ امریکی آرمی چیف چیخ پکار کر رہا ہے کہ انہیں بڑے بڑے فوجی آپریشن انجام دینے کے لئے مزید 2لاکھ 20ہزار فوجیوں کی ضرورت ہے۔ 6اپریل 2016ء کو کانگرس سے خطاب میں جنرل مارک ملیے نے کہا کہ ہمارے پاس موجود 9لاکھ 80ہزار کی فوج ایک رسک ہے کہ امریکہ جیسی عالمی سپرپاور کے پاس محض ایک ملین فوج ہے۔ جنرل ملیے نے کہا کہ ہمیں ہر مزید طلب کردہ فوج میں ہر 10ہزار فوج کے لئے الگ سے ایک ارب ڈالر کے بجٹ کی بھی ضرورت ہو گی وگرنہ تو ہم کھوکھلی طاقت والے سپرپاور ہی سمجھے جائیں گے۔
اگر ہمارے پاس مطلوبہ اضافی رقم نہیں توملک کے اندر کئی اڈے بند کرنے پڑیں گے جس کی کانگرس خود بھی مخالف ہے۔ 11اپریل 2016ء کو فاکس نیوز نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ عراق و افغانستان میں کام کرنے والے ہزاروں امریکی فوجی عجیب و غریب قسم کی مختلف شدید بیماریوں کا شکار ہو گئے ہیں، یہ وہ فوجی ہیں جو جنگی اڈوں پر زہریلا مواد جلانے والے گڑھوں کے آس پاس ڈیوٹی دیتے ہیں۔ یہاں طرح طرح کا زہریلا مواد اور بارود جلایا جاتا تھا۔ اس مصیبت نے بے شمار فوجیوں کو کینسر جیسے ہلاکت خیز مرض سے بھی دوچار کر ڈالا ہے۔ سپر پاور کے خمار میں مبتلا امریکہ کی اس وقت حالت یہ ہے کہ افغانستان میں یہ فرعون چاروں شانے چت ہو کر پاکستان کے پائوں پکڑ کر مذاکرات کے ذریعے افغانستان کے کمبل سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔وہ وقت اب آن پہنچا ہے کہ اس بار ایک نہیں، دو ویت نام امریکہ کے تعاقب میں ہیں۔ بس اک ذرا صبر کہجبر کے دن تھوڑے ہیں۔