تحریر : قادر افغان شمالی کوریا اور امریکہ کے درمیان روز با روز بڑھتی کشیدگی اور آئے روز ایک دوسرے کے خلاف ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کرنے کی دھمکیوں نے عالمی امن کو خطرے میں ڈالا ہوا ہے ۔ امریکہ اپنی استبدادی و استعماری قوت کے ساتھ کسی بھی ملک پر چڑھائی کرکے اُس مملکت کو اپنی نو آبادی غلام ریاست سمجھ کر اپنی من مانی کرتا چلا آیا ہے ۔ لیکن جس طرح شمالی کوریا جیسے ملک نے امریکہ کو آنکھیں دیکھائی ہیں ،شمالی کوریا اُن ترقی یافتہ ، مالی و قدرتی وسائل سے بھرپور ممالک ، خاص طور پر ایٹمی پاور رکھنے والے یا خواہش رکھنے والے ممالک کے لئے بڑی مثال بن کر اُبھرا ہے۔شمالی کوریا یکم مئی جنگ عظم دوئم کے بعد اُن علاقوں میںقائم ہو ا، جن پر سوویت یونین کا قبضہ تھا ،ریاست ہائے متحدہ 37 لاکھ مربع میل یعنی 96 لاکھ مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا یہ ملک دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے، جس میں کل تیس کروڑ سے زائد لوگ آباد ہیں۔ امریکہ کے مقابلے میں 46500 ہزارمربع میل اور22.3ملین آبادی رکھنے والے ملک شمالی کوریا نے امریکہ جیسے اڑیل بھینسے کو سینگھوں سے پکڑا ہوا ہے ، شمالی کوریا کے مقابلے میں امریکا کا دوسرا اور دنیا کا تیسرا (یا چوتھا) بڑا ملک ہے۔ اس کے شمال میں کینیڈا، جنوب میں میکسیکو، مشرق میں بحر اوقیانوس اور مغرب میں بحر الکاہل واقع ہیں۔امریکی فوج، معشیت، ثقافت اور سیاسی اثر و رسوخ میں انیسویں اور بیسویں صدی میں بڑھا ہے۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد جب سرد جنگ ختم ہوئی تو امریکا دنیا کی واحد عالمی طاقت کے طور پر ظاہر ہوا اور اب امریکا دنیا بھر میں کھلم کھلا مداخلت کر رہا ہے۔
1950ء میں شمالی کوریا نے جنوبی کوریا پر حملہ کیا کرکے اُس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی ، تاہم تین سال کی جنگ کے بعد چین اور امریکہ کی مداخلت سے جنگ بندی ممکن ہوئی۔شمالی کوریا میں اشتراکی نظام قائم ہے اور امریکی دھمکیوں سے قطع نظر اپنی افواج کی مسلح طاقت میں مسلسل اضافہ کررہا ہے ۔ شمالی کوریا نے گزشتہ دنوں بلسٹک میزائل کا تجربہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ امریکہ کے کسی بھی شہر کو ایٹمی میزائل سے نشانہ بنا سکتا ہے ۔ حالیہ عالمی تناظر میں امریکہ کے صدر نے شمالی کوریا کو باقاعدہ دھمکی دیتے ہیں کہ” وہ شمالی کوریا کو ایسا سبق سیکھائیں گے کہ وہ یاد کرے گا ، شمالی کوریا کو آگ و غصے کا سامنا کرنا ہوگا جسے دنیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا “، جواباََ شمالی کوریا نے امریکہ کو نشانہ بنانے کیلئے چار میزائل تیار کرنا شروع کردیئے ہیں، اورشمالی کوریا نے دھمکی کے جواب میں خود پر رعشہ و لرزہ طاری کرنے کے بجائے اُلٹا امریکہ کو کہا ہے شمالی کوریا ، بحر الکاہل میں امریکی جزیرے “گوام’کو میزائل سے نشانہ بنانے کے قابل ہوگیا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ میں امریکی انٹیلی جنس کے اہلکاروں کے حوالے بتایا گیا کہ “پیانگ یانگ نے اپنے میزائلوں کے اندر فٹ ہونے والے چھوٹے کیمیائی وار ہیڈ تیار کرلئے ہیں”۔جس کے بعد امریکی صدر کو یہ بھی کہنا پڑا کہ “امریکہ شمالی کوریا کا دشمن نہیں ہے”۔ چین نے شمالی کوریا سے کہا ہے وہ پہلا حملہ نہ کرے ، اور امریکہ سے کہا ہے کہ اگر اس نے پہلا حملہ کیا تو چین شمالی کوریا کا ساتھ دے گا ۔چین نے اقوام متحدہ میں شمالی کوریا کے خلاف پابندی کے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا ، جس کے بعد سے شمالی کوریا کو 3ارب ڈالر سالانہ نقصان کا سامنا کرنا ہوگا گو کہ چین، شمالی کوریا کا واحد اتحادی ملک ہے لیکن سلامتی کونسل میں شمالی کوریا کے خلاف پابندی کی قرار داد میں اپنا ویٹو پاور استعمال نہیں کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے چین کو بھی دھمکی دی ہے کہ وہ شمالی کوریا کے خلاف اپنے اثر رسوخ کو استعمال کرے بصورت دیگر امریکہ تن و تنہا سب کچھ کرلے گا، چین نے اس تنازعے میں امریکہ سے گارنٹی مانگی تھی کہ کیا وہ جزیرہ نما کوریا سے اپنی فوجیں بلالے گا تو امریکی صدر ٹرمپ نے واضح کہا کہ امریکہ تن و تنہا سب کچھ کرسکتا ہے۔
امریکا، چین کو اقتصادی و تجارتی مراعات میں تعاون کا عندیہ دیا جاچکا ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ شمالی کوریا کے ساتھ سخت رویئے میں ممکنہ جنگ سے بچنے کیلئے واحد راستے کو بند کرنے سے قبل چین نے مزید وقت حاصل کرلیا ہے ۔ شمالی کوریا ، امریکہ کے مقابلے میں بڑی تیزی سے ایٹمی ہتھیار کررہا ہے اور امریکہ کو ببانگ دہل چیلنج کررہا ہے کہ اگر امریکہ نے کسی قسم کی کاروائی کی غلطی دوہرائی تو اِ س کی قیمت چکانی ہوگی۔شمالی کوریا اُس مملکت کو للکار رہا ہے ، جس کے انٹارٹیکا کے علاوہ دنیا کے تمام براعظموں میں فوجی مراکز ہیں۔امریکہ شمالی کوریا کے مقابلے میں جنوبی کوریا کوشمالی کوریا کے مقابل کھڑا کرنے کیلئے مسلسل جنوبی کوریا کی فوجی و مالی مدد کررہا ہے ۔دراصل امریکہ سرد جنگ کے بعد جس طرح دنیا میں واحد عالمی طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے ، اس لئے امریکا نہیں چاہتا کہ کوئی بھی ملک عسکری اور معاشی طاقت میں اس کے مد مقابل کھڑا ہوسکے ۔ امریکہ کی عجیب منطق ہے کہ وہ خود پر ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیرے لئے بیٹھا ہے ، میزائل بنا بنا کر پوری دنیا میں کھلم کھلا مداخلت کرتا ہے ، لیکن اس کے مقابل اگر کوئی ملک اپنی مملکت کے تحفظ کیلئے خود کو مضبوط بنانا چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری قرار دیا جاتاہے کہ پہلے وہ امریکی غلامی کو اختیار کرے۔
امریکہ ، چین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے شروع سے ہی خائف ہے اس لئے چین کو عالمی طاقت بننے سے روکنے کیلئے ایک جانب بھارت اور دوسری جانب جنوبی کوریا کو چین کے خلاف کیا ہوا ہے ۔ چین مسلسل پُرانے ورلڈ آرڈر کو تبدیل کرنے عالمی تجارتی منڈی میں بھرپور طاقت بن کر ابھر رہا ہے اور چین کی مصنوعات سستی ہونے کے سبب پوری دنیا میں سہیل اور سستے طریقے سے پہنچنے پر امریکہ کی مہنگی ترین مصنوعات کو کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کرسکتا ہے ۔ اس لئے امریکہ مسلسل چین کو عالمی طاقت بننے سے روکنے کے لئے خطے میں ایک نئی جنگ چھیڑنے کا خواہش مند ہے ۔ لیکن اس کے لئے مسئلہ یہ ہے کہ امریکی کمزور معیشت ، بھاری جنگ کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتی ، عراق ، شام اور افغانستان میں تو امریکہ نے اپنے فوجیوں کو کرائے کے طور پر استعمال کیا ، جبکہ عرب ممالک کے سامنے ایران کا ہوا کھڑا کرکے ، اُن کے خزانوں پر امریکہ ہاتھ صاف کر رہا ہے۔
شمالی کوریا جو اقتصادی لحاظ سے مضبوط ملک ہے ، جبکہ جنوبی کوریا ، امریکی جنگ کے بھاری اخراجات اٹھانے کے قابل نہیں ہے اس لئے امریکہ اقوام متحدہ کے کندھے پر بندوق رکھ کر دراصل شمالی کوریا کو نہیں بلکہ چین کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔گو کہ اپریل میں پہلی مرتبہ امریکی صدر اور چین صدر کی ملاقات ہوئی تھی ، جس میں شام میں مہلک ہتھیاروں کے استعمال اور دیگر معاملات زیر بحث آئے ، اس دورے کو امریکی صدر نے نئے تعلقات کا آغاز قرار دیا تھا ، حالاں کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ ، چین کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے کہ چین کی وجہ سے امریکہ کو اقتصادی خسارے کا سامنا ہے ۔ جنوبی کوریا ، کو چین کے خلاف استعمال کرنے کیلئے امریکہ اس قدر اس مملکت پر حاوی ہے کہ جنوبی کوریا اپنی مملکت میں امریکہ کی جانب سے بڑی سی بڑی کاروائی اور جنگی مہلک تنصیبات کو بغیر اجازت نصب کردیتا ہے اور امریکہ کو جنوبی کوریا سے اجازت لینے کی بھی ضرورت لینے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ حال ہی میں امریکہ کے متنازع میزائل سسٹم ٹرمینل ہائی آلٹی ٹیوڈ ایریا ڈیفنس (تھاڈ)کی جنوبی کوریا میں تنصیب کا معاملہ امریکہ اور چین کے درمیان باعث تنازعہ بنا ہوا ہے۔جب سے امریکہ نے اس میزائل پروگرام کو جنوبی کوریاکے دفاع کے نام پر وہاں نصب کرنے کا اعلان کیا ہے، چین کی جانب سے اس کی شدید مخالفت اور تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ چین کے مطابق جنوبی کوریا میں اس میزائل پروگرام کی تنصیب دراصل چین کے خلاف اشتعال انگیزی کے متراد ف ہے۔ گرچہ یہ معاملہ چین اور امریکہ کے مابین تنازعہ بنا ہوا تھا، تاہم جنوبی کوریا کی حکومت نے بھی اس میزائل پروگرام کی اپنے ملک میں تنصیب پر تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔شمالی کوریا کے پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں 2008ء میں شمالی کوریا پر الزام لگایا گیا تھا کہ اُس نے پاکستانی سیاست دان سے ایٹمی صلاحیت میں مدد حاصل کی ہے ، جس کی دونوں ممالک نے سختی سے تردید کی تھی۔
بھارت کے شمالی کوریا کے ساتھ گرم جوشی کی ظاہری نمائش کے تعلقات ہیں ، ایک طرف سخت آمریت اور دوسری طرف نام نہاد جمہوریت کا یہ عجیب ملاپ دراصل بھارت کی جانب سے شمالی کوریا کے معدنی وسائل سے فائدہ اٹھانے کی لالچ پر مرکوز ہیں ، گو کہ بھارت جنوبی کوریا کے ساتھ بھی اپنے تعلقات بہتر رکھنا چاہتا ہے لیکن شمالی کوریا کے ساتھ جہاں معدنی وسائل ، جس کا بھارت کو کمی سامنا ہے اُیسے پورا کرنے کیلئے اور چین کے مخالفت میں شمالی کوریا کی مضبوط اقتصادی قوت و سائل کو بھارت اپنی مملکت کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے ۔ عمومی جائزہ لیں تو ظاہر یہ ہوتا ہے کہ امریکہ ، شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام اور میزائیل ٹیکنالوجی کی آڑ میں شمالی کوریا کے خلاف کاروائی کی آڑ میں چین کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ چین میں جمہوری اشتراکی نظام قائم ہے اورکل رقبہ 9640821 کلو میٹر یعنی3722342 مربع میل پر محیط ہے جبکہ چین کی کل آبادی تقریباََ ایک ارب تیس کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔امریکا ، سوویت یونین کے خاتمے کے بعد چین کی اقتصادی ترقی اور اب فوجی طاقت سے خائف ہے ۔ چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لئے امریکہ خطے میں جنگ دراصل شمالی کوریا کے خلاف نہیں بلکہ پس پردہ چین کے خلاف کرنا چاہتا ہے۔
چین امریکی عزائم کو سمجھتا ہے ۔ اسی لئے جب امریکہ نے اپنا متنازع میزائل سسٹم ٹرمینل ہائی آلٹی ٹیوڈ ایریا ڈیفنس (تھاڈ)کی جنوبی کوریا میںنصب کیا تو چین نے امریکی عزائم کو اشتعال انگیزی کے مترادف قرار دیا ۔ امریکہ ایک جانب جنوبی کوریا ، بھارت کو چین کے خلاف استعمال کررہا ہے تو دوسری جانب سی پیک اور ون روڈ ون بیلٹ کو ناکام بنانے کے لئے پاکستان اور افغانستان میں بے امنی اور خانہ جنگی کو فروغ دے رہا ہے تاکہ چین کو کسی دشواری کے بغیر یورپ تک رسائی نہ مل سکے۔پاکستان کو امریکہ کی اس نئی مہم جوئی کی فطرت میں اپنی ماضی کی پالسیوں سے سبق لیتے ہوئے ، کسی بھی ملک کی خوشنودی کے لئے یکطرفہ موقف سے احتیاط سے کام لینا چاہیے ۔ ماضی میں خارجہ پالیسی میں زمینی حقائق اور پاکستان کو پیش آنے والے مضمرات اور پرائی جنگ کو اپنی جنگ میں تبدیل کرنے اثرات سے انتالیس برس گذر جانے کے باوجود گلوخلاصی نہیں مل سکی ہے ، بلکہ اُلٹا پاکستان کا کوئی پڑوسی ملک ایسا نہیں جو سر زمین پاک سے عناد نہ رکھتا ہو ۔ غیر جانبدارانہ پالیسیوں میں ملکی مفاد کو پیش نظر رکھنا نہایت ضروری ہے ۔ کیونکہ دو اہم ممالک کے معاملے میں پہلے ایک فریق ، پھر دوسرے فریق کے ساتھ اور بعدازاں غیر جانبدارنہ پالیسی نے بھی نقصان دیا ہے۔پاکستان کو مملکت میں درپیش مسائل اور بیرونی عناصر کی پاکستان کی خلاف سازشوں پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔