تحریر : انجینئر افتخار چودھری امریکیوں کو پاکستان پر اعتبار نہیں ہم ہیں کہ اس کی محبت میں مرے جاتے ہیں اس دیوی پر ہم نے اپنی کتنی عافیہ قربان کیں اور کتنے لوگ وں کی بلی چڑھائی اس کا شمار محکمہ شماریات پاکستان بھی دینے کو قاصر ہے۔ہم اس کے لئے وہ کچھ کر گزرے اور جب بھی کار گزاری دکھانے کے بعد حصول ستائیش کے لئے دربار میں حاضری دی تو جواب ملا ڈو مور۔قوم تو اس وقت کو کوس رہی ہے کہ جب پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان روسی دعوت کو ٹھکرا کر واشنگٹن پہنچے۔پاک امریکہ دوستی بشیر ساربان سے ہوتے ہوئے موجودہ دور کے درباری حکمرانوں تک پہنچی اس دوران پاکستان دو لخت بھی ہوا۔مجھے وہ دن یاد ہے کے ریلوے کے انجنوں پر پاک امریکہ دوستی کے نشان ہوا کرتے تھے PWRپھر صرف پاکستان ریلوے رہ گئی اور ہم ساتواں بحری بیڑہ دیکھتے ہی رہ گئے۔پاک امریکہ دوستی کا پہلا تحفہ ١٩٧١ میں میں ملا۔ہم جو سیٹو اور سینٹو کے اتحادی تھے ہمیں کٹ پھنڈ کے رکھ دیا گیا اور پاکستان وفا کی تلاش میں دیکھتے ہی رہ گئے۔اس سے پہلے قوم اس سانحے سے دوچار ہو چکی تھی جس میں پاک امریکہ دوستی کے بانی لیاقت علی خان اپنی جان دے بیٹھے تھے۔ہمیں دوستی کی سزا دینے میں ماسکو بھی سر گرم رہا وفا نبھانے میں ہمارے بڈھ بیر کے اڈے کی نشاندہیاں بھی کرائی گئیں ہم تھے کہ اس ضدی اور موڈی ملک کو منانے میں جتے رہے۔
سچ پوچھیں ہم تھک چکے ہیں پاکستان کی خواہش ہے کہ دنیا میں امن ہو بھائی چارہ ہو لوگ ایک دوسرے سے پیار محبت سے ملیں اپنی اپنی حدود میں رہ کر اپنی خواہشات پر جینا سب کی خواہش ہے۔ہم تو سچ پوچھیں اس بیوہ کی طرح ہیں جو امن چین سے شرافت کے پردے میں رہنا چاہتی ہے مگر گلی کے تلنگے اس پر انگلیاں اٹھانے سے باز نہیں رہتے۔چائینہ ایک سڑک کے ذریعے سے دنیا تک پہنچنا چاہتا ہے اس سے پاکستان کو سکھ کا ساہ مل سکتا ہے ۔اس کے حالات بہتر ہو سکتے ہیں لیکن لگتا ہے دنیا کا چودھری نہیں چاہتا کہ اس کے کمی کمین روٹی ٹکڑ اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر کھائیں۔ہم نے کون سی چوپڑیاں مانگی ہیں روکھی سوکھی کا سوال ہے اس وقت پاکستان کی یہ حالت ہے کہ اس کے دو کروڑ کے قریب لوگ باہر کے ملکوں میں رہر ہے ہیں۔باہر میں بے شک وہ سونے کا نوالہ کھاتے ہوں مگر ککھوں ہولا ہو کر زندگیاں بسر ہو تی ہیں ۔مڈل ایسٹ کے تگڑے ملک سعودی عرب نے اب ان کے بال و پر نوچنے شروع کر دیئے ہیں۔ملک میں گوڈے گوڈے غربت چھائی ہوئی ہے ۔ہم پہلے ہی سی معاشی دہشت گردوں کا شکار ہیں چاہے وہ اندرونی ہیں یا بیرونی۔پھر ہمیں چین سے کیوں نہیں رہنے دیا جاتا۔کیا امریکہ چاہتا ہے کہ ہم سچ مچ کے دہشت گرد بن جائیں اس لئے کہ لطیف جذبے مفلسی کے ہاتھوں مر جاتے ہیں۔
ایک پیشہ ور قاتل کیوں بنتا ہے جب سب کچھ اس سے چھین لیا جتا ہے ہمیں مجبور کیوں کیا جاتا ہے کہ ہم حافظ سعید جیسے محب وطنوں کو مزید دیوار کے ساتھ لگا دیں ۔کیوں جی اس نے آپ کا اور اس دنیا کا کیا بگاڑا ہے؟پاکستان کے لئے اس کی خدمات کا اعتراف تو آج ہی کے دن آنے والے زلزلے میں امریکی بھی کر چکے ہیں۔جو لوگ انڈیا میں اپنے حقوق کی لڑائی لڑ رہے ہیں وہ مجاہد ہیں انڈیا انہیں بھلے سے باغی قرار دے۔امریکیوں کو خود سمجھنا چاہئے کہ ایک وقت میں وہ بھی ریڈ انڈینز کے لئے در انداز تھے غاصب تھے۔کشمیر میں اگر مسلمان آزادی کی جدو جہد کر رہے ہیں تو انہیںباغی کیوں کہا جا رہے سیدھی سی بات ہے انہیں حق خود اختیاری دیا جائے ،یہ آزاد کشمیر کے مٹھی بھر نعرہ زن بد ہضمی کے ڈکار لے رہے ہیں انہیں نکڑ میں ڈال دیں کشمیریوں کو حق دیںکہ وہ ہند اور پاکستان میں جس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں رہیں۔امریکہ کو چاہئے کہ پاکستان کو سکھ کا سانس لینے دے۔چائینہ اگر ایک سڑک بنا رہا ہے جس سے دنیا سے اس کے راستے مختصر ہوتے ہیں تو اس سے خطے کو فائدہ ہے۔اس پٹی میں بننے والا راستہ دنیا کے لئے فائدہ مند ہے۔ہم اگر اس راستے سے مستفید ہو رہے ہیں تو وہ ہمارا حق ہے۔
جیمز میٹس حوصلہ اور تسلی رکھیں پاکستان کبھی بھی امریکہ کے لئے اپنے ہمسایوں کے لئے خطرہ نہیں ثابت ہو گا۔ویسے امریکیوں سے پاکستانیوں کا بھی سوال ہے کہ کل جب گجرات میں مسلم خون کو پانی کی طرح بہایا گیا تو آپ نے جو ایکشن مودی کے خلاف لیا اسے ایک دم کیوں کو بھلا دیا گیا اور وہ مودی جو بنگلہ دیش میں جا کر اعلان کرتا ہے کہ ہاں ہم نے پاکستان کو دو لخت کیا تھا اس دہشت گرد کو ویزہ سے انکار کرنے کے بعد اس کا استقبال کیا گیا یہ کون سا چہرے ہیں آپ کے پاس جو کبھی کچھ اور کبھ اور شکل میں دنیا کے سامنے آتے ہیں۔اور شنید یہ بھی ہے کہ دو نمائیندے اگلے ماہ پاکستان آ کر کوئی انتہائی سخت پیغام دینا چاہتے ہیں ۔واہ جی واہ آپ ہی اپنی ادائوں پے ذرا غور کریں سچ پوچھیں ہمارے ساتھ ہاتھ ہوا ہے اس وقت ہی ہمارے شیر سورما جو کسی سے ڈرتے ورتے نہیں تھے طوفان کے سامنے نہ لیٹتے تو تو ہمارا یہ حشر نہ ہوتے مزید سچ پوچھیں تو ہم سو جوتے بھی کھائے اور گنڈے بھی۔ہمیں بتایا گیا کہ ہم ایک سجدہ کر رہے ہیں جو ہمیں ہزار سجدوں سے نجات دے دے گا۔پر ہوا یوں کے جب ہم سجدہ ریز ہوئے تو ہمارے کنڈ پر بھارت جیسے مکروہ ملک کو بھی چڑھا دیا گیا ہمیں ایران افغانستان جیسے ککڑ مونیں ملکوں نے زد میں لے لیا اور تو اور نیفے کے پسو بن گئے وہ ملک جو ہمیں اسلام کا قلعہ قرار دیتے تھے۔
آئیے میں اس ڈر اور خوف جو ایک حقیقت ہے اس کی جانب لئے چلتا ہوں۔پچھلے دنوں مجھے شمالی علاقہ جات کی جبری سیر کرائی گئی بیٹے کی خواہش تھی ہم میاں بیوی ان کا احترام کرتے ہوئے چل نکلے راستے میں میں نے مختلف لوگوں سے انٹر ویو کئے چلاسی نوجوانوں سے مکالمہ ہوا ہنزہ کے بعد ایک خوبصورت مقام پاسو میں ایک استقبالئے میں شریک ہوا جو وہاں کے نوجوان نجیب نے نوید افتخار کے اعزاز میں دیا تھا جوانوں کی زبان سے جو کچھ سنا وہ قابل توجہ ہے یہی وہ علاقہ جس کی بات امریکہ کر رہا ہے کہ یہ متنازعہ علاقہ ہے لوگ اسلام آباد کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔اس علاقے میں بجلی نامی چیز نہیں ہے یہاں موبائل سروسز بلکل بھی نہیں ہیں اور تو اور سیاحت کے لئے اس جنت علاقے میں پاکستان حکومت کی جانب سے کچھ بھی نہیں ایک شاہراہ قراقرم ہے جو چین اور پاکستان دوستی کی نشانی ہے۔دوسری پاک فوج ہے جو وہاں کے پتھروں پر پاکستان زندہ باد کے نعرے تو لکھ رہی ہے مگر سولین حکومتیں دلوں پر جو تحریر لکھ رہی ہیں اسے پڑھنے کی ضرورت ہے جو سچ پوچھیں ٹھیک نہیں ہیں۔میں یہ نہیں لکھ سکتا کہ وہاں محبت کے زمزمے بہہ رہے ہیں وہاں دریائے سندھ اور دریائے گلگت دونوں مل کر نوحہ لکھ رہے ہیں کہ یہاں کچھ ہونے والا ہے۔اگر یہ راستہ نہیں بنتا تو سمجھ لیں یہ راستے ہمارے نہیں رہیں گے اس لئے کہ جس مکار دشمن سے ہمارا واسطہ ہے وہ مختلف طریقوں سے وارد ہونے کی کوشش کرے گا۔
آغا خانی فیکٹر کو کبھی مت بھولئے گا میں اس کے مضمرات لکھ کر پریشان نہیں کرنا چاہتا لیکن ایک بات ضرور کہوں گا کہ گلگت بلتستان اور ان علاقے کے لوگوں کو اپنا بنائیے ان کی مزید عزت کیجئے ان کی تعلیم کے اخراجات برداشت کیجئے ایک پڑھا لکھا شخص پورے علاقے پر حاوی ہے۔پاکستان کی سیاسی پارٹیاں وہاں زیادہ عمل دخل کریں وہاں کے نوجوانوں کو سینے سے لگائیں تحریک انصاف وہاں ایک امید بن کر ابھری ہے ایک سیٹ تو وہ ایک ووٹ سے ہاری ہے باقی دو تین بھی چند ووٹوں سے۔جوان اتنے ماڈرن اور خوبصورت ہیں کہ جینز پہن کر بکریوں اور مال مویشیوں کے ریوڑ چراتے ہیں خود دار اتنے کہ میں چھ روزہ قیام میں کسی کو ہاتھ پھیلاتے ہوئے نہیں دیکھا۔اس خود دار قوم کے دل جیتنا بہت ضروری ہے ورنہ جیم میٹس کے ایلچی جو پیغام لائے ہیں وہ ایک پٹی ایک راستے کے ساتھ ایک خطرہ بھی ہے ۔لگتا ہے امریکہ ہمارا وہ دوست ہے جو ہمارے کسی کام کو سراہنے کے موڈ میں نہیں ہے۔اس نے ون بیلٹ ون روڈ کو متنازعہ بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ہم اس محبوب کو منانے کے لئے کیا کچھ نہ کر بیٹھے پاکستان نے ہزاروں جانیں اس کی رضا اور خوشنودی کے لئے قربان کیں وہ بلینز ڈالر دینے کی بات کرتا ہے ہم نے ٹریلینز برباد کئے لیکن روٹھے سیاں پھر بھی نہیں مانے امریکی ویر خارجہ جیمز میٹس نے سینٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کو بتایا کہ یہ راستہ متنازعہ علاقے سے گزر رہا ہے جسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔اسی خرانٹ دلہن کے قبول نہیں کی بات کو آسان نہ سمجھا جائے اپنے اس پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے امریکہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔کچھ بھی