پاکستان میں نجکاری کا عمل

America Flag

America Flag

پاکستان میں آجکل بڑے اداروں کی نجکاری کا شور سنائی دے رہا ہے، ان میں پیداوار اور خدمات مہیا کرنے والے دونوں قسم کے ادارے شامل ہیں۔ نجکاری کے عمل کو امریکہ نے سراہا ہے کہ اس سے پاکستانی معیشت میں بہتری آئے گی۔ امریکہ ہماری میعشت کو ‘بہتر’ بنانے کا خواہشمند ہے اسے ہر پاکستانی بہتر طور پر سمجھتا ہے۔ امریکہ کی طرف سے اس کا اظہار پاک ایران گیس پائپ لائن کے معاہدے کے موقع پر پاکستانی قوم دیکھ چکی ہے۔ امریکہ کسی ملک کو کروڑوں یا اربوں ڈالر قرض یا امداد تو دے سکتا ہے لیکن اس کے پیداواری ذرائع کو مضبوط نہیں بنا سکتا۔ یہ اس کی پالیسی میں شامل ہے۔ معاشی طور پر ایک مضبوط اور توانا پاکستان امریکہ کو قبول نہیں، پاک امریکہ تعلقات کی ساٹھ سالہ تاریخ اس کا ثبوت ہے۔ دنیا کے کسی ملک میں بھی نجکاری کے عمل سے امریکہ کو تسکین ملتی ہے۔ قومی اداروں کو تحویل میں لینے اور ان کی پرائیویٹائزیشن کا عمل پاکستان میں گذشتہ چار عشروں سے جاری ہے۔

اس کی شفافیت کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتابلکہ ماضی میں کئی اداروں کے اثاثوں کی قیمت میں گڑ بڑ کرنے کے شواہد موجود ہیں۔بات کسی دوسری طرف نکلی جا رہی ہے۔پاکستان میں کئی عشروں سے انتخابی سیاست میں اینٹی امریکہ نعرے لگانے والے کامیاب ہوتے آرہے ہیں۔ اس کے برعکس امریکہ مخالف حکومتیں زیادہ عرصہ قائم بھی نہیں رہ سکیں۔

ہماری یاداشت کمزور ہے اور ہم مبہم سوچ کے عکاس رویوں کی حامل قوم بن چکے ہیں ۔ ہم سیاسی جماعتوں کے ایجنڈوں کو جانتے ہوئے بھی ایسے لوگوں کو منتخب کرتے ہیں جو پرو امریکہ ہیں۔ یہ سیاسی جماعت جب برسراقتدار آکر معاشی پالیسی نافذ کرتی ہے تو ہم اسے دشنام دیتے ہیں ۔ ہم ایک طرف امریکہ سے نفرت کرتے ہیں اور دوسری طرف وہاں جانے کے لیے بے تاب بھی رہتے ہیں۔ ہم ملکی معیشت میں بہتری بھی چاہتے ہیں اور بد اعنوانی سے بھی پاک نہیں۔ ہمارے انفرادی رویے قومی رویے کی تشکیل میں مدد گار ثابت نہیں ہوتے۔ ہماری ذاتی سوچ قومی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی۔

TV Channels

TV Channels

ہم رجعت پسند سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مغرب مخالف نعروں کے اسیر ہیں، ہماری رائے وال چاکنگ، کتابچوں اور ٹی وی چینلوں کے ان اینکروں کی بحث مباحثوں سے ماخوذ ہے جو اپنے سامعین کی تعداد بڑھانے کے لیے پر اسرار اور انکشاف انگیز گفتگو کرتے ہیں۔ ہم اپنی پستی اور غربت کی ذمہ داری ان حکمرانوں پر ڈالتے ہیں جن کو ہم خود منتخب کرتے ہیں۔ہمارا ارتقائی سفر طویل ہوتا جارہا ہے، یہ بات آسانی سے ہضم ہونے والی نہیں کہ قوموں کی زندگی میں پچاس ساٹھ برس کا وقت زیادہ نہیں ہوتا۔ پاکستان بننے کے بعد اب تیسری نسل انتخابی عمل میں حصہ لے رہی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے رویوں اور سوچ میں ابھی تک نکھار پیدا نہیں کر سکے۔ قومی ایشوز پر ہماری رائے دو ٹوک اور واضح نہیں اور نہ ہی اس کی تشکیل میں توازن کو سامنے رکھا گیا۔ پاکستان میں رائے کی تشکیل انتہائی بائیں یا دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جماعتیں کرتی رہی ہیں جن کا ایجنڈے قومی کی بجائے ذاتی نوعیت کا رہا ہے۔

ہم سوشلسٹوں کو گالیاں دیتے ہیں اور مذہبی جماعتوں کو دہشت گردی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ہم قبائلیوں کو اپنا اثاثہ بھی سمجھتے ہیں اور ان پر لشکر کشی کے ذریعے امداد بھی لیتے ہیں اور وہ بھی اس ملک سے جسے ہم اپنی تنزلی اور پستی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں ۔ ہم ایک ہی وقت میں اپنے ہمسایوں سے جنگ اور امن چاہتے ہیں ۔ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں ؟،کیوں کہ ہم واضح قومی پالیسی نہیں رکھتے۔ ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم ان بنیادی جکڑبندیوں سے آذاد ہونے سے خوف ذدہ ہیں جو ہماری کلچر کا حصہ بن چکی ہیں۔ دنیا میں درجنوں ایسے ممالک موجود ہیں جو ہمارے بعد سامراج سے آذاد ہوئے اور ان کا جی ڈی پی ہم سے زیادہ ہے، ان میں مسلم اور غیر مسلم ممالک بھی ہیں۔ ہم قومی اداروں میں لوٹ مار کرنا چاہتے ہیں اور ان کو روزگار کا ذریعہ بھی سمجھتے ہیں ۔

قوم کی مجموعی شکل کو اگر دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم پاکستانی کے بجائے پنجابی، پختون، بلوچ اور سندھی کی شناخت کو زیادہ قابل فخر سمجھتے ہیں۔ ہم فرقہ پرستی اور گروہ بندی کو اپنا شناختی حوالہ تصور کرتے ہیں۔ عقیدے کی بنیاد اور مسلکی اختلافات کی بناد پر جنگ و جدل ہمارے مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔

Privatization

Privatization

ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ ہم نجکاری کے حق میں ہیں لیکن امریکہ کو اس بارے خاموش دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ہم نجکاری کے خلاف ہیں لیکن امریکہ کو خاموش دیکھنا چاہتے ہیں۔ہم جدید ٹیکنالوجی سے مستفید ہونا چاہتے ہیں لیکن امریکہ کو پسند نہیں کرتے۔ ہم اپنے تمام نقائص کا ملبہ امریکہ پر ڈال دیتے ہیں اور اس کی پیروی بھی کرنا چاہتے ہیں ۔ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اس کا جواب اگلے کالم میں دیا جائے گا۔

تحریر: ملک سرفراز احمد اعوان ۔۔۔سیالکوٹ