لاہور (جیوڈیسک) ملزم سے سچ اگلوانا ،سات پردوں میں چھپے شواہد ڈھونڈ لانا اب مشکل نہیں، پنجاب فارنزک سائنس لیبارٹری جرائم کے کیسز حل کرنے میں اہم کردار ادا کررہی ہے ، جہاں پولیس اور دیگر ادارے روز تقریباً چھ سو کیسز بھیجتے ہیں۔
جرم کیسا ہی ہو، مجرم کتنا ہی ہوشیار کیوں نہ ہو۔ فارنسک ماہرین کے لیے شواہد تلاش کرنا اور معمہ حل کرنا مشکل نہیں۔ یہ صرف مغربی دنیا کے قصے نہیں بلکہ پاکستان میں بھی یہ صلاحیت موجود ہے او ر اس اہم کردار امریکا سے لوٹ کر آنے والے محمد طاہر کا بھی ہے۔ محمد طاہر ہیںکون ہیں اس حوالے سے تفصیلات یہ ہیں کہ وہ فارنسک سائنٹسٹ ہیںان کی امریکا میں اپنی لیبارٹری تھی اور اس دوران امریکا میں 35 سال پولیس اور ایف بی آئی کے ساتھ کام کیا۔ باکسر مائیک ٹائی سن پر ریپ کےالزامات ثابت کرکے اسے جیل بھیجوانے سمیت بہت سے اہم عقدے حل کیئے۔
پاکستان میں جدید طریقوں سے تحقیقات کے لیے محمد طاہر 2008 میں شہباز شریف کی درخواست پر پاکستان لوٹ آئے اور 2012 میں 31 ملین ڈالر کی لاگت سے لیبارٹری تیار ہو گئی۔ آج اس لیبارٹری میں ہر روز فنگر پرنٹس ، ڈی این اے ، الکوہل کی تصدیق سمیت مختلف اقسام کے 600 کیسز آتے ہیں اور پولیس بغیر تشدد ملزمان کی اصلیت جان جاتی ہے۔ پنجاب فارنسگ سائنس لیبارٹری نے زیادتی ، قتل سمیت بہت سے معاملات میں مجرموں کی شناخت میں کردار ادا کیا تاہم پولیس اہل کاروں کی شواہد محفوظ کرنے میں کم علمی اور قانونی پیچیدگیاں اب بھی بہت سے عقدے حل کرنے میں رکاوٹ ہیں۔