واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا میں آباد مسلمان بھی امتیازی سلوک کا شکار ہو رہے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے متعدد ایسے اقدامات کیے ہیں جن سے مسلم برادری بھی خود کو امریکا میں اکثریتی سفید فام برادری کے مقابلے میں مساوی حقوق کا حامل نہیں سمجھ سکتی۔
امریکا میں سیاہ فام باشندے جارج فلوئڈ کی پولیس کےمبینہ تشدد کے سبب ہونے والی ہلاکت کے بعد سے وہاں آباد سیاہ فام اور دیگر رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے شہریوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور پرتشدد مظاہروں کی شکل میں یہ باشندے سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ ماہرین اور مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکا میں جتنے بڑے پیمانے پر اس وقت مظاہرے ہو رہے ہیں وہ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے انتباہ ہے۔ ان کے بقول حکومت کو اب اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سیاسی سطح پر اقدامات کرنا ہوں گے وگرنہ تشدد کی آگ کے یہ شعلے بھڑکتے چلے جائیں گے۔ اس بارے میں ڈوئچے ویلے کے ساتھ سیاسی ، سماجی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے شعبوں سے منسلک ماہرین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
وسطی امریکی ریاست اوکلوہاما یونیورسٹی کی پروفیسر اور پوسٹ کالونئیل سیاست اور لٹریچر کی ماہر ڈاکٹر نائلہ علی خان نے ڈی ڈبلیو کو امریکا میں پائی جانے والی نسل پرستی اور سیاہ فام باشندوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا، ”جارج فلوئڈ کے قتل کے تناظر میں، ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کی خدمات، ان کے نظریے اور فکر کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے معاشرے میں ثقافتی سطح پر لچک دار رویہ پیدا کرنے، غلامی، نسل پرستی اور تعصب کے خلاف مزاحمت کی انفرادی سطح پر کوشش کر کے سامراجی عالمی نظام میں اپنی جگہ پیدا کی اور مساوات اور انصاف کے حصول کی جدو جہد کی ایک مثال قائم کی۔ آج کل کے دور میں امریکا کو پھر ایسی تحریک کی ضرورت ہے۔‘‘
دو ہزار تین میں 17 سالہ افریقی نژاد امریکی ٹین ایجر ٹریون مارٹن کا فلوریڈا میں پولیس کے ہاتھوں قتل ہوا تھا۔
نوبل انعام یافتہ مارٹن لوتھر کنگ نے امریکا میں نسل پرستی، امتیازی سلوک اور سیاہ فام باشندوں کے ساتھ غلامانہ برتاؤ کے خلاف سول رائٹس موومنٹ 1955 ء سے لے کر 1968ء تک یعنی اپنے قتل تک جاری رکھی۔ ڈاکٹر نائلہ خان نے مارٹن لوتھر کنگ کا قول دہراتے ہوئے کہا کہ موجودہ امریکی حکومت کو مارٹن لوتھر کے اس فلسفے کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر کنگ نے کہا تھا، ”مجھے اقتدار کی خاطر طاقت میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، لیکن مجھے ایسی طاقت میں دلچسپی ہے جو اخلاقی، صحیح اور اچھی ہو۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ موجودہ امریکی حکومت کو اس بحران سے نمٹنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ ڈاکٹر نائلہ نے کہا،”جارج فلوئڈ کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی واقعے کے بعد کی صورتحال کو معمول پر نہیں لایا جاسکتا ، اور نہ ہی ہم نسلی امتیازی سلوک اور نفرت انگیز جرائم کی حوصلہ افزائی کے متحمل ہو سکتے ہیں۔” ٹرمپ انتظامیہ کو “دوسرے” کے خوف سے نمٹنے کی ضرورت ہے، جو تشدد کا باعث بنتی ہے ، اور پولیس اہلکاروں کی بنیادی تربیت میں انسانیت پسندی کو شامل کیا جائے۔‘‘
امریکا میں بہت سے ماہرین و مبصرین کا خیال ہے کہ نسل پرستی، سیاہ فام باشندوں کے خلاف نفرت اور انہیں امتیازی سلوک کا نشانہ بنانے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس کی آگ عشروں سے سلگ رہی ہے اور رہ رہ کر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جس سے یہ آگ بھڑک اُٹھتی ہے۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈیلس ٹيکساس میں مقيم معروف پاکستانی سينيئر صحافی اور تحفظ ماحول اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن عافیہ اسلام نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کہا،”اس وقت امریکا میں جو پر تشدد مظاہرے ہو رہے ہیں اُس کی شدت اور پھیلاؤ متعدد شہروں میں نظر آ رہی ہے لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے چند سالوں پہلے ایک 17 سالہ افریقی نژاد امریکی ٹین ایجر ٹریون مارٹن کا فلوریڈا میں قتل ہوا، بالٹی مور میں رائٹس ہوئے، 2014 ء میں فرگوسن میں سفید فام امریکی پولیس اہلکار کے ہاتھوں ایک سیاہ فام ٹین ایجر مارا گیا۔ اُس وقت میں اسی طرح کے پرتشدد مظاہرے ہوئے جیسے کہ ابھی مختلف شہروں میں ہو رہے ہیں۔ یہ مسائل صدیوں سے چلے آ رہے ہیں جنہیں ہر بار اس قسم کے واقعات کے سامنے آنے کے بعد دبا دیا جاتا ہے۔ کبھی محض کاغذوں تک محدود پالیسی سازی کر کے۔ یہ ایک منظم امتیازی سلوک اور ناانصافی ہے جو ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے۔‘‘
ڈونلڈ ٹرمپ مارٹن لوتھر کننگ کے متضاد ہیں۔
اس بار جتنے بڑے پیمانے پر تشدد، لوٹ مار اور ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آ رہی ہے اس کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں؟ اس سوال کے جواب میں عافیہ اسلام کا کہنا تھا،”اس وقت کورونا کے بحران کے تناظر میں دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ کووڈ انیس کے سبب ہونے والی اموات میں سب سے زیادہ اموات افریقی نژاد امریکیوں کی ہوئی ہیں۔ نوکریوں سے محروم ہونے والوں میں بھی انہی کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ ان حالات میں جارج فلوئڈ کے ساتھ ہونے والے انتہائی درجے کے تشدد کے واقعے نے آگ کو بھڑکا دیا۔ امریکی انتظامیہ نے جو بند باندھ رکھے تھے اسے کہیں نا کہیں تو ٹوٹنا تھا۔ وہ اب ٹوٹتا دکھائی دے رہا ہے۔‘‘
عافیہ کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہرے، توڑ پھوڑ اور تشدد ان سب کے باوجود امریکا میں کسی بہتری کی امید کرنا خوش امیدی تو ہو سکتی ہے تاہم اس کے امکانات بہت کم ہیں۔ پولیس کا تشدد جاری ہے، کرفیو تک لگ چکا ہے۔ مظاہرین کے خلاف پولیس مسلسل تشدد کا استعمال کر رہی ہے اس سب کے کوئی اچھے نتائج نکلتے نہیں نظر آ رہے۔
پاکستان کی معروف انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن اور پشتون موومنٹ کی سرکردہ رکن گلا لئی اسمعیل نے امریکا میں سیاہ فام باشندوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک اور غیر انسانی رویے کی سخت مذمت کی ہے۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو اس بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا،” امریکا میں پولیس کے ہاتھوں ہونے والے نسل پرستانہ تشدد کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ، اور اگر ریاستی حکام اس کو “چند خراب سیب” کا مسئلہ سمجھتے رہے تو یہ آخری واقعہ نہیں ہو گا۔ یہ چند ظالمانہ نسل پرست افراد کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ایسے فعال نظام کا مسئلہ ہے جس میں حکام کو نتائج سے بے نیاز،بلا خوف و خطر کسی کی جان تک چھین لینے کا اختیار حاصل ہے۔ امریکی عدالتی نظام کے لیے وقت آگیا ہے کہ وہ یہ واضح طور پر سمجھ لیں کہ پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام لوگوں کے قتل کے نتائج برآمد ہوں گے۔‘‘
گلا لائی اسمعیل کا کہنا تھا کہ جارج فلوئڈ کے واقعے اور اس کے بعد کی صورتحال میں انہیں پاکستان میں پشتون اور بلوچ جیسے پسماندہ قوموں کے لوگوں کی حالت زار کے درمیان مماثلت نظر آئی۔
امریکی پولیس کو ہر طرح کے اختیارات حاصل ہیں۔
امریکا کے متعدد شہروں کی طرح ریاست پنسلوینیا کے سب سے بڑے شہر فلاڈیلفیا میں بھی سیاہ فام باشندوں کی طرف سے بہت پر تشدد مظاہرے، لوٹ مار کے واقعات اور جلاؤ گھراؤ ہوا ہے۔ فلاڈیلفیایونیورسٹی کے ریٹگرس لاء اسکول کے ایسو سی ایٹ پروفیسر، پاکستانی نژاد ماہر کرمنل لاء عدنان ذولفقار امریکی عدالتی نظام اور یولیس کے قوانین پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے حالیہ صورتحال کےبارے میں ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو میں کہا،” امریکا میں اس قسم کے احتجاج اور مظاہروں کو سمجھنے کے لیے امریکی تاریخ کو جاننا ضروری ہے۔ امریکی تاریخ کا ایک بنیادی اصول نسل پرستی ہے جو معاشرے میں چھپا رہتا ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں یہ کھل کر سامنے آگیا ہے۔ نسل پرستی امریکی پولیس کلچر کا بنیادی جزو ہے۔جو جارج فلوئڈ کے ساتھ مینیسوٹا میں ہوا وہ ہر امریکی شہر میں سیاہ فام اور لاطینی امریکی باشندوں کے ساتھ روزانہ بنیادوں پر ہوتا ہے۔‘‘
امریکا میں آباد مسلمان بھی ایک عرصے سے امتیازی سلوک کی شکایات کر رہے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے متعدد ایسے اقدامات کیے ہیں جن سے یوں ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم برادری بھی خود کو امریکا میں اکثریتی سفید فام برادری کے مقابلے میں مساوی حقوق کا حامل نہیں سمجھ سکتی۔ اس بارے میں عدنان ذولفقار کا کہنا تھا،’’ امریکا میں مسلم کمیونٹی کا سب سے بڑا حصہ سیاہ فام امریکی باشندے ہیں۔ جو اقدامات ایفرو امریکن باشندوں کو متاثر کرتے ہیں وہ یقیناً پوری مسلم برادری پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر آپ سفید فام نہیں ہیں تو آپ کسی نا کسی دن نسل پرستی کا شکار ضرور ہوں گے۔ یہ ہم نے امریکا میں نائن الیون اور ٹرمپ کے دور میں دیکھ لیا ہے۔ ’’مسلم بین‘‘ کے نام سے چند مسلمان ممالک پر لگنے والی سفری پابندی وغیرہ ، یہ سب کچھ نسل پرستی کی ہی مختلف شکلیں ہیں۔‘‘
جرائم کے قوانین کے ماہر عدنان ذولفقار کے بقول،’’ نسل پرستی ٹرمپ کے دور میں پروان نہیں چڑھی بلکہ اس دور میں کئی لوگوں کی نگاہوں پر سے پردہ اُٹھ گیا ہے اور امریکی معاشرے میں ہمیشہ سے پایا جانے والا یہ رجحان اب سب کو نظر آ رہا ہے۔‘‘