ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایرانی پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے نئے کمانڈر اسماعیل قآنی نے باور کرایا ہے کہ وہ “خطے سے امریکا کو حتمی طور پر نکالنے کے لیے” لڑیں گے۔ قآنی کا یہ موقف القدس فورس کے سابق سربراہ قاسم سلیمانی کی موت کے جواب میں سامنے آیا ہے۔ سلیمانی جمعے کو علی الصبح بغداد میں امریکی فضائی حملے میں مارا گیا تھا۔
ایران کے سرکاری ریڈیو کے مطابق بریگیڈیئر جنرل قآنی نے تہران میں قاسم سلیمانی کے جنازے سے قبل کہا کہ “ہم اسی طاقت کے ساتھ سلیمانی کا مشن جاری رکھنے کا عزم کرتے ہیں… ہماری جانب سے تعزیت کا واحد طریقہ یہ ہے کہ خطے سے امریکا کو نکال دیا جائے”۔
اس سے قبل ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے اتوار کے روز امریکی چینل سی این این کو دیے گئے انٹرویو میں اعلان کیا تھا کہ سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں ایران کا رد عمل “عسکری” نوعیت کا ہو گا۔ خامنہ ای کا مزید کہنا تھا کہ “جنگ کا آغاز امریکا نے کیا ہے لہذا امریکا کو ردود عمل کو قبول کرنا ہو گا”۔
دوسری جانب ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے تہران میں ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ “ایران جنگ کے لیے کوشاں نہیں مگر وہ کسی بھی صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے”۔ موسوی کا مزید کہنا تھا کہ ایرانی قیادت سلیمانی کی موت کا ایسا جواب دینے کی کوشش کرے گی جس پر دشمن اپنے کیے پر ندامت کا شکار ہو جائے البتہ حتی الامکان طور پر ایرانی عوام کو کسی جنگ میں گھسیٹنے سے گریز کیا جائے گا۔
ادھر ایرانی پاسداران انقلاب کے ثار اللہ ہیڈکوارٹر کے کمانڈر محمد اسماعیل کوثری کے مطابق ایران کسی جنگ یا تنازع کی کوشش نہیں کر رہا ،،، تہران نے آغاز کیا اور نہ کرے گا البتہ یقینا ہم امریکیوں کو نشانہ بنائیں گے۔
لبنان میں ایران نواز ملیشیا حزب اللہ کے سکریٹری جنرل حسن نصر اللہ کا کہنا ہے کہ ایرانی قیادت خطے میں اپنے ہمنوا “مزاحمتی گروپوں” سے قاسم سلیمانی کی موت کا جواب دینے کا مطالبہ نہیں کرے گا تاہم ہر گروپ پر لازم ہے کہ وہ اپنے تئیں مناسب طور جواب دے۔
بیروت میں سلیمانی کے تعزیتی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نصر اللہ نے زور دیا کہ سلیمانی یمن، لبنان، شام، عراق، افغانستان اور دیگر ملکوں میں موجود تھا۔
دوسری جانب یمن میں حوثی باغیوں نے ایک ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ ایران پر لازم ہے کہ وہ جواب میں دیر نہ کرے۔
ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے جمعے کے رو دھمکی دی تھی کہ سلیمانی کی موت کا “سنگین انتقام” لیا جائے گا۔ تاہم خامنہ ای نے جواب کے رد عمل کی نوعیت کا تعین نہیں کیا۔