واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکہ اور روس نے جنیوا میں ہونے والے مذاکرات میں شام میں جنگ بندی کے ایک ’پیچیدہ‘ معاہدے پر اتفاق کیا ہے، جس کے تحت 12 ستمبر کو غروب آفتاب کے ساتھ ہی اس پر عمل درآمد ایسے وقت شروع ہو گا جب مسلمان عید الاضحیٰ منا رہے ہوں گے۔
سوئیٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں امریکہ کے وزیر خارجہ جان اور اُن کے روسی ہم منصب سرگئی لاوورف کے درمیان جمعہ کو ہون والے مذاکرات کے بعد شام میں جنگ بندی سے متعلق منصوبے کا اعلان کیا گیا۔
لیکن واضح رہے کہ دونوں ملک طویل عرصے سے اس بارے میں بات چیت کرتے رہے ہیں۔
روسی ہم منصب کے ساتھ کھڑے امریکہ وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ ’’ہم سمجھتے ہیں کہ اس زیادہ اور کچھ مناسب نہیں ہو سکتا کہ تمام فریق اکٹھے ہوں اور عید کے موقع کو شامی لوگوں اور خطے کے لیے معنی خیز بنائیں‘‘
جان کیری نے کہا کہ شام کے صدر بشار الاسد کی فورسز کی فضائی کارروائیاں شہریوں کی جانی نقصان اور لوگوں کی بے دخلی کی بڑی وجہ بنیں۔
دوسری جانب روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوورف کا کہنا تھا کہ اُن کے ملک نے جنگ بندی سے متعلق معاہدے کے بارے میں شام کی حکومت کو آگاہ کیا ہے اور وہ بھی اس پر عمل درآمد پر آمادہ ہیں۔
امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے ذرائع ابلاغ کے گفتگو میں کہا کہ اس منصوبے کے تحت شام کی حکومت اور باغیوں کو دونوں ہی کو اپنی اپنی ذمہ داری نبھانا ہو گی۔
جان کیری کا کہنا تھا کہ شام میں باغی جنگ بندی کے اس منصوبے پر عمل درآمد کو تیار ہیں لیکن اُن کے بقول ایسا اُسی وقت ممکن ہو گا جب شام کی حکومت بھی اس بارے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔
منصوبے کے تحت امریکہ اور روس ’داعش‘ اور النصرہ فرنٹ کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کے لیے ایک مشترکہ مرکز بنائیں گے۔
دونوں ہی ملکوں، امریکہ اور روس نے اس علاقے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون بڑھانے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کی جانے والی امدادی کارروائیوں کو وسیع کرنے اور مربوط بنانے کا بھی عندیہ دیا ہے۔
شام کی صورت حال سے متعلق موقف پر امریکہ اور روس کے تعلقات میں تناؤ بھی رہا ہے، اس کی وجہ شامی صدر بشار الاسد کے مستقبل کے بارے میں دونوں ملکوں کے موقف میں اختلاف ہے۔
امریکہ اور شامی حزبِ اختلاف صدر اسد کی اقتدار سے فوری بے دخلی کے خواہش مند ہیں جب کہ روس اور شامی حکومت کا سب سے بڑا علاقائی اتحادی ایران صدر بشار الاسد کے اقتدار میں رہنے کا حامی ہے۔
شام میں گزشتہ پانچ سال سے جاری جنگ نے ملک کو بری طرح متاثر کیا ہے، اس خانہ جنگی کی وجہ سے تقریباً پانچ لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جب کہ تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ افراد کو اپنے گھر بار چھوڑ کر پناہ کی تلاش میں دوسرے ملکوں کا رخ کرنا پڑا۔
شام کے کئی علاقے اب بھی محاصرے میں ہیں۔ روس اور امریکہ کے وزیر خارجہ کے درمیان جنیوا میں ہونے والے مذاکرات کے بعد جب دونوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کی تو اُن کے ہمراہ شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی استفان ڈی مستورا بھی موجود تھے۔
جنہوں نے جنگ بندی کے منصوبے کو خوش آئند پیش رفت قرار دیتے ہوئے اس اُمید کا اظہار کیا کہ اس سے بہت سے علاقوں تک امدادی سامان پہنچانے میں بھی مدد ملے گی۔