امریکہ کے بعد پھر روس کی باری

Afghanistan

Afghanistan

15 فروری کو افغانستان سے روس کے انخلاء کو 25 سال مکمل ہو گئے… اس تاریخی واقعہ کو آج روس میں کس طرح یاد کیا جاتا ہے، اس پر بی بی سی اردو کے فراز ہاشمی نے ماسکو میں موجود وائس آف رشیا کے سینئر صحافی مجاہد مرزا سے بات کی اور پوچھا کہ 25 سال بعد روس میں اس دن کو کس طرح یاد کیا جاتا ہے۔ بی بی سی اردو نے اپنی ویب سائٹ پر اس عبارت کے ساتھ ایک آڈیو نشریہ جاری کیا جس میں فراز ہاشمی نے مجاہد مرزا سے مختلف سوالات کئے۔ مجاہد مرزا نے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ روس میں آج بھی افغانستان سے انخلاء کو یاد تو کیا جاتا ہے لیکن اس وقت روس پر یہ خوف سوار ہو چکا ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد وہاں برسر پیکار قوتیں لامحالہ پھر سے روس کا ہی رخ کریں گی۔ اس حوالے سے روس کے اخبارات اور صحافی اپنے عوام کو بھی آگاہ کرتے اور تبصرے کرتے رہتے ہیں۔ افغانستان کے حوالے سے حکومت بھی سخت پریشان ہے۔

آج سے ٹھیک 25 سال پہلے 1989ء میں روس نے افغانستان سے اپنا وہ فوجی انخلاء مکمل کیا تھا جس کا آغاز جنیوا معاہدے کے تحت 15 مئی 1988ء کو ہوا تھا۔ روس کی فوج کا جنرل بورس گروموف وہ آخری اعلیٰ افسر تھا، جس نے افغانستان سے نکلتے ہوئے اس ملک سے آخری قدم نکالا تھا۔ افغانستان پر روس نے 27 دسمبر 1979ء کو یہ کہہ کر اپنی فوج داخل کی تھی کہ وہاں قائم حفیظ اللہ امین کی حکومت عوام پر مظالم ڈھا رہی ہے۔ اصل مقصد تو دنیا جانتی تھی کہ پاکستان کے راستے گرم پانیوں تک پہنچنا تھا لیکن ان کا یہ خواب ہر روز طویل ہی ہوتا گیا۔ افغان قوم کی مدد کے نام پر آنے والی روسی فوج نے سالہا سال افغانستان پر اس قدر بمباری کی کہ 10 لاکھ سے زائد افغان جام شہادت نوش کر گئے تو 50 لاکھ کے لگ بھگ وطن چھوڑ کر پڑوسی ممالک خاص طور پر پاکستان و ایران میں داخل ہو گئے۔ نہتے افغانوں نے روسی سامراج کا مقابلہ ڈنڈوں، پتھروں، کلہاڑیوں اور دیسی بندوقوں سے شروع کیا۔ افغان جہاد کے ان غازیوں سے ہم نے کتنے ہی واقعات سنے کہ وہ روسی ٹینکوں کو قابو کرنے کے لئے کیسے ان کے چین پتھر، گارے سے لتھڑے کمبل یا لکڑیاں ڈال کر جام کر دیتے اور پھر ٹینکوں پر چڑھ کر ان میں موجود فوجیوں کو ہلاک کر ڈالتے تھے۔ دو سال تک یہی سلسلہ جاری رہا اور پھر دنیا بھر سے مسلم نوجوان روسی سرخ سامراج کے خلاف جہاد کے لئے پاکستان کے راستے افغانستان پہنچنے لگے۔ مجاہد مرزا نے بھی یہی کہا کہ افغانستان میں پاکستان نے پراکسی جنگ لڑی تھی جس کے نتیجے میں روس کو وہاں سے نکلنا پڑا۔

میڈیا کے ذریعے سے قوم کے دل و دماغ پر سوار نام نہاد دانشور یہ تو کہتے ہیں کہ افغانستان میں روس کو شکست دینے میں اصل کردار امریکی اسلحہ کا تھا لیکن کبھی یہ نہیں بتا پاتے کہ اس جنگ میں کتنے امریکی روس کے خلاف لڑتے ہوئے مارے گئے تھے۔ یعنی باتوں کے بادشاہوں کے نزدیک جنگ اور لڑائی میں انسانوں کا سرے سے کوئی کردار ہوتا ہی نہیں۔ ان کے نزدیک میدان میں تو اسلحہ اور ڈالر لڑتے بھڑتے اور شکست فتح کا فیصلہ کرتے ہیں، وہ اصل بات اس لئے نہیں بتاتے کہ اس سے ان کے جھوٹ کا پول خودبخود کھل جاتا ہے۔ حقیقت تو یہ تھی کہ شروع میں مونگ پھلی کے کاشتکار امریکی صدر جمی کارٹر نے پاکستان کے دفاع کے لئے صرف 40کروڑ ڈالر کی فوجی و مالی امداد پیش کی تھی جسے صدر ضیاء الحق شہید نے مونگ پھلی کہہ کر ٹھکرا دیا تھا۔ پھر جب امریکہ نے دیکھ لیا کہ افغان اڑھائی سال بعد بھی تن تنہا اور نہتے طور پر روس کے خلاف سینہ سپر ہیں اور روس کو روک کر شکست دینے کی اہمیت رکھتے ہیں تو وہ ویت نام میں اپنے خلاف روس کی خفیہ جنگ کا بدلہ لینے کیلئے اپنا اسلحہ لے کر پہنچ گیا۔ یہ جنگ دس سال تک جاری رہی جس کی ساری منصوبہ بندی پاک فوج اور پاکستانی خفیہ ادارے کرتے رہے۔

دس سال تک سارے افغان جہاد کا بیس کیمپ پاکستان رہا۔ آج بھی اس جنگ میں بے گھر ہو کر آنے والے تیس لاکھ افغان شہری پاکستان میں مقیم ہیں۔ روس کی عبرتناک شکست کا نتیجہ اس کی شکست و ریخت کی شکل میں نکلا تو روس کے شکنجے میں جکڑے وسط ایشیا اور قفقاز کے 6 ممالک آزاد ہوئے۔ کمیونزم کا سورج غروب ہوا تو کمیونسٹ یوگوسلاویہ ٹوٹ کر چھ ملکوں میں بٹ گیا اور آج یورپ میں مسلمانوں کے دو آزاد ملک بوسنیا اور کوسووا اسی افغان جہاد کی برکات کے نتیجے میں نقشہ پر ہمیں نظر آتے ہیں۔

افغان جہاد کو امریکی جنگ اور امریکی قوت کا نتیجہ قرار دینے والوں کے منہ پر تاریخ نے ایسا تھپڑ رسید کیا کہ آج وہی امریکہ اپنے 48 اتحادیوں سمیت شکست کھا کر نکل رہا ہے لیکن آج کوئی یہ بتانے بلکہ اس کا تذکرہ تک کرنے کو تیار نہیں کہ امریکہ اور اس کے دنیا بھر کے اتحادیوں کو شکست دینے میں آخر طالبان اور افغان مجاہدین کی کس نے مدد کی ہے اور کس نے ان کا ساتھ دیا ہے؟ اس بار ڈالر اور سٹنگر کہاں سے آئے؟ کس نے دیئے؟ عقل والوں کیلئے یہ بہت بڑی نشانی ہے لیکن اگر وہ سمجھنے کیلئے کچھ تیار ہوں تو افغانستان میں امریکہ کی اس جنگ کے بارے میں سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اپنے مضمون میں اس طرف نشاندہی کی کہ: ”اگر امریکہ نے افغانستان سے نکلنے میں جلدی کی اور دانشمندی سے کام نہ لیا اور دنیا کو یہ تاثر ملا کہ واحد سپرپاور شکست کھا گئی ہے تو علاقائی اور عالمی سطح پر جہاد ازم” کو فروغ ملے گا۔

Taliban

Taliban

اگر افغانستان میں طالبان دوبارہ برسر اقتدار آ گئے تو کئی ممالک کے لئے مشکلات پیدا ہوں گی۔ اگر افغانستان میں استحکام پیدا نہ کیا گیا تو امریکہ سے زیادہ پڑوسی ممالک خطرے میں رہیں گے اور اگر امریکہ نے نکلنے میں عجلت کا مظاہرہ کیا تو بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔ افغانستان سے نکلنے کے معاہدے میں امریکیوں کو ایک بات یقینی بنانا ہو گی وہ یہ کہ انخلاء حتمی ہو، یعنی دوبارہ مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔ ”(نیوز ویک، پاکستان ایڈیشن 3 جون 2011ئ) افغانستان میں امریکہ کے زیراستعمال گاڑیوں کی تعداد 50 ہزار ہے۔ گولہ، بارود اور دیگر سازوسامان کو بھیجنے میں امریکہ کو 5 ارب 70 کروڑ ڈالر خرچ کرنا ہوں گے، امریکہ یہاں بہت کم سازوسامان فوجیوں کے لئے چھوڑنا چاہتا ہے۔ کرنل اینڈریو یورالنگ امریکہ کی 133 ویں ایئربورن بریگیڈ کے سربراہ ہیں، ان کے سامنے کئی کلومیٹر طویل کنٹینروں کا ایک سمندر موجود ہے۔ امریکہ اور اتحادیوں کے پاس اب صرف 11 مہینے بچے ہیں۔ اس عرصے میں ان سب کو نکالنا ایک دشوار ترین کام ہے۔

اربوں ڈالر کی مالیت کا اسلحہ، بارود اور دیگر سامان افغانستان میں بکھرا پڑا ہے، نہ سب کو چھوڑ سکتے ہیں اور نہ سب ساتھ لے جا سکتے ہیں۔ اسلحے سے بھرے کنٹینر سڑکوں پر کھڑے ہیں۔ ان میں قیمتی سامان موجود ہے، اسلحے سے بھرے کئی کنٹینر غائب بھی ہو گئے ہیں۔ ان کی رپورٹ بھی درج کی گئی ہے۔ مشرقی افغانستان میں بگرام ایئربیس میں امریکہ کا سب سے بڑا اڈا موجود ہے۔ اس کے علاوہ کئی چھوٹے چھوٹے ایئربیس بھی ہیں۔ چھوٹے اڈوں سے اسلحہ اور ساز و سامان واپسی کے لئے یہاں پہنچایا جاتا ہے اور چھانٹی کی جاتی ہے۔ سول کنٹریکٹر دن رات اسی کام میں لگے ہوئے ہیں کہ کون سا سامان تلف کرنا ہے۔ یہ سب کام تیزی سے ہو رہا ہے اور مزدور دن رات کام میں لگے ہیں۔ امریکی فوج کے 455 بریگیڈ کو فوجیوں کو امریکہ بھجوانے کا کام سونپا گیا ہے۔ فوج کا یہ یونٹ روزانہ 1300 فوجی اور 600 ٹن سامان امریکہ بھجواتا ہے۔ 4 x4 فٹ کے آہنی باکس میں 3 لاکھ ڈالر کی اشیاء موجود ہوتی ہیں اور ہر ہفتے 300 کنٹینر جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے 2011ء میں برائون یونیورسٹی کے واٹسن انسٹی ٹیوٹ انٹرنیشنل سٹڈیز نے اعداد و شمار پیش کئے کہ عراق اور افغانستان میں جنگوں پر تقریباً 4400 ارب ڈالر کے اخراجات ہوئے ہیں۔ اس میں زخمیوں کے علاج اور افغانستان میں تعمیر نو کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔ ماہر معاشیات جوزف اسٹگلر کا کہنا ہے کہ صرف افغانستان میں 2200 ارب ڈالر خرچ کرنا پڑے ہیں اور 2کروڑ 25 لاکھ امریکی بے روزگار ہو چکے ہیں۔

یہ اعداد و شمار 2012-13ء کے ہیں۔ آج 2014ء شروع ہے، سخت سردی کے باوجود امریکیوں کی ہلاکتوں اور اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ جوں جوں امریکہ اور نیٹو تیزی سے اپنے ساز و سامان اور فوجیوں کو واپس لے جا رہے ہیں، طالبان کے حملوں میں بھی شدت بڑھتی جا رہی ہے۔ افغانستان کی سرزمین پر 19 ویں اور 20 ویں صدی میں برطانیہ اور سابق سوویت یونین کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اب 21 ویں صدی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ایک اور شکست دیکھے گی۔ اس شکست کے مکمل اعلان سے پہلے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت اور پھر سے سپرپاور کا روپ دھارنے کیلئے خواب دیکھنے میں مگن روس کی ٹانگیں لڑکھڑا رہی ہیں۔ دنیا میں نائن الیون سے کہیں بڑی تبدیلی رونما ہونے کو ہے… دیکھئے اگلا منظر کیسا شروع ہوتا ہے۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر: علی عمران شاہین