تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری سامراجی ملک خواہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہو جائیں اور یہود و نصاریٰ و اسرائیل ان کی مدد کے لیے ہمیشہ ہی برسر پیکار رہیں مگر اسلام دشمنوں کی اندرونی بزدلی انھیں مسلمانوں کے مقابلے میں اکثر و بیشتر شکست سے دو چار کیے ہی رکھتی ہے ۔شاہ فیصل شہید کے زمانے میں امریکہ آج ہی کے دور کی طرح اسلام دشمن کاروائیوں پر تلاہوا تھا تو شاہ فیصل نے ان کے تیل بند کرنے کا اعلان کردیا تو فوراً ہی سبھی عالمی غنڈے اور دہشت گرد طاقتیں راہ راست پر آگئیں۔بھٹو دور میں عالم اسلام کی سربراہی کانفرنس لاہور میں منعقد کی گئی اور سامراجیوں نے بہت چوں چراں کی اور انھیں اس سے باز رہنے کابھی کہا بھٹو کی طرف سے ایسے” نام نہاد آقائوں “کا حکم نہ ماننے کا صلہ بعد میں انھیں خود بھگتنا پڑا تھا شاہ فیصل مرحوم خود اس میں تشریف لائے سربراہی کانفرنس کے انعقاد کے لیے بغیر اعلان کیے ڈھیروں امداد کی گو کہ بھٹو صاحب نے اس کانفرنس کے ذریعے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا اچانک اعلان کر ڈالاجس کا سبھی سربراہوں نے برا منایا تھا نابغہ ٔ عصر سید ابوالاعلیٰ مودودی جو کہ اس وقت زندہ تھے جو جو اسلامی مملکتوں کے سربراہ ان سے ملاقات کے لیے ان کی رہائش گاہ اچھرہ لاہور تشریف لے گئے انہوں نے وہاں عالم اسلام کے مسائل پر بات چیت کی اور انھیں بنگلہ دیش تسلیم کیے جانے کی بابت اپنے خیالات سے آگاہ کیا۔
خود مولانا مودودی اس کانفرنس میں شمولیت کے لیے صوبائی اسمبلی لاہور کی عمارت جہاں اجلاس کا انعقاد ہورہا تھا پہنچے ابھی وہ حال کے اندر داخل نہیں ہوئے تھے اور عمارت کے باہر موجود سیڑھیاں چڑھ رہے تھے کہ انھیں بتایا گیا کہ بھٹو صاحب نے اندر منعقد کیے جانے والے اسلامی سربراہی کانفرنس میں بنگلہ دیش (جو اس وقت بھارتی کالونی بنا ہوا تھا) کو تسلیم کرنے کا اعلان کر ڈالا ہے وہ وہیں سے واپس چلے گئے اور اجلاس میں شرکت نہ کی۔شاہ فیصل شہید نے1974کی تحفظ ختم نبوت کی تحریک کے دوران پاکستانی حکومت کو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے کے لیے دبائو ڈالا تھا۔
دنیا کی تیسری بڑی مسجد اسلام آباد میں تعمیر کرنے اوروہاں بڑی اسلامی یونیورسٹی کے قیام کے لیے امداد دی تھی ان کی عالم اسلام کے لیے پر خلوص اور ولولہ انگیز کو ششیں سامراجیوں کوکسی صورت قبول نہ تھیں اس لیے انہیں راستے سے ہٹانے کے لیے شہید کرواڈالا گیا۔اب پھر ایک عرصہ کے بعد 47اسلامی ممالک کی سربراہی کانفرنس کی میزبانی سعودی عرب نے کی ہے جہاں ٹرمپ کی صدارت کروائی گئی جب کہ یہ صاحب بہادر وہی ہیں جن کی جیت کی خوشی میں مودی سرکار نے شادیانے بجائے تھے اور انہوں نے پوری انتخابی مہم کے دوران اسلام کے خلاف سخت جذباتی اور گالم گلوچ سے بھرپور زبان استعمال کی تھی تاکہ وہاں کے عیسائی انھیں اپنا ہمدرد سمجھ کر مذہبی عقائد کی بنیاد پر ووٹ دے ڈالیںحتیٰ کہ دوران انتخابی مہم کئی جگہ مساجد کو بھی شہید کرواڈالا تھا اور جونہی وہ اقتدار میں آگئے انہوں نے سات اسلامی ممالک کا اپنے ہاں داخلہ بند کر ڈالا اور وقفے وقفے سے سبھی مسلمانوں کو امریکہ سے نکل جانے کا حکم دیتے رہتے ہیں اب اسلامی سربراہی کانفرنس میں جو کچھ دنیا نے دیکھا وہ محیر العقول ہی نہیں بلکہ ہمارے سبھی حکمرانوں کی قابل رحم اور قابل افسوس حالت کو ظاہر کرتا ہے کہ تقریباً سبھی سربراہ اس خواہش کے غلام نظر آئے کہ وہ کسی طرح ٹرمپ سے ہاتھ ملا سکیںعالمی میڈیاپر ایسا دکھایا جانا دنیا کے غیور مسلمانوں کے منہ پر ایک تمانچہ کی حیثیت رکھتا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ47اسلامی ممالک کے سربراہوںکو اکٹھا اس لیے کیا گیا کہ ٹرمپ کی صدار ت میں اجلاس منعقد کرکے دیگر عالمی طاقتوں کو یہ پیغام دیا جاسکے کہ ٹرمپ ہی پوری اسلامی دنیا کا ” واحد سکہ بند لیڈر ہے”اور تمام عالم اسلام اس کے اشاروں پر چلنے کو تیار ہے واحد ایٹمی اسلامی مملکت پاکستان کے وزیر اعظم کی تقریر نہ کروایا جانا(خواہ وہ وقت کی کمی اور حروف تہجی کی بنیاد پر ہی کیوں نہ ہو) بھی اچنبھے کی بات لگتی ہے۔
امریکہ اور شاہ سلمان کی طرف سے بھی دہشت گردی کے خلاف پاکستانی افواج اور عوام کی مشترکہ کوششوں اور ایک لاکھ شہادتوں کا ذکر تک کرنا بھی مناسب نہ سمجھا گیا ۔آج پورے عالم اسلام میں شاہ فیصل کی یاد آرہی ہے اور وہ مسلمانوں کی موجودہ حالت زار دیکھ کر خون کے آنسو رہ رہے ہیں اور ہم پاکستانی ٹھہرے صرف اقتداری خواہشات کے غلام کہ کسی طرح سے احتجاج کرنے کی جرأت تو کیا کرنا تھی اف تک بھی نہ کرسکے یہاں تک کہ ایک ہمسایہ اسلامی ملک ایران کے خلاف باتیں کیے جانے پر سخت سست بھی نہ کہ سکے۔بین الاقوامی میڈیا میں جن اربوں ڈالرز قیمت کے انعامات کا اعلان سعودی حکمرانوں کی طرف سے ٹرمپ کے لیے کیا گیا اس سے دنیا سکتے میں آگئی حتیٰ کہ ایران کو کہنا پڑا کہ ہم پہلے سے کہتے آرہے ہیں کہ سامراجی سعودی ارب کو گائے کی طرح نچوڑ ڈالیں گے پہلے بھی حفاظتی اقدامات کے ناطے ہزاروں امریکی فوجی سعودی عرب میں موجود ہیں اور کئی لاکھ فی کس کے حساب سے تنخوا ہیں بٹور رہے اور مکہ اور مدینہ کی دھرتی پر ” ہمہ قسم عیاشیاں ،اوباشیاں” کررہے ہیں اور کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں سعودی پاک سرزمین کی ایک بڑی سڑک کا ٹرمپ کے نام پر رکھنااور وہیں مسلمانوں کے دشمن کا مجسمہ نصب کرنا جیسے اعلانات کو شاید کوئی مسلمان بھی اچھی نظروں سے نہ دیکھ سکے۔
جو قیمتی تحفے ذاتی طور پر ٹرمپ کو دیے گئے ان میں انتہائی قیمتی اور نایاب ہیرا خالص سونے سے تیار کردہ گن 25کلو وزنی خالص سونے سے تیار کردہ 20کروڑ ڈالر قیمت کی تلوار جس پر ہیرے اور دیگر نادر قسم کے پتھر نصب ہیں سونے اور ہیروں سے تیار کردہ پچیس گھڑیاں جن کی قیمت22کروڑ ڈالر سے زائد ہے مزید 150سے زائد ہیرے اور جواہرات سے سجے عبایہ مجمسہ آزادی کا ہم شکل مجمسہ جو ہیرے جواہرات سے تیار شدہ ہے،80کروڑ ڈالر کی قیمتی 125 میٹر لمبی کشتی جو کہ دنیا کی سب سے لمبی ذاتی کشتی ہے جس میں80عام کمرے اور20شاہی کمرے شامل ہیں جن کے بیشتر اعضاء سونے سے تیار کردہ ہیں۔ یہ تحائف عالم اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ٹرمپ کو( جس نے چند روز قبل ہی افغانستان پر دنیا کے سب سے بڑے غیر ایٹمی بم کو مارا تھا )دیا جانا دنیا کے مسلمانوں کے دلوں میں خونی خنجر کی طرح گھونپنے کے مترادف ہے۔