پاکستان کو آزاد ہوئے 71 واں سال ہونے کو ہے ، امریکا اور اس کے حوارین روز اول سے ہی امریکا کو پاکستان کا اتحادی قرار دے رہے ہیں ۔ انکا کہنا ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے لیکر اب کی بار بننے والے وزیراعظم تک سب کے اتحادی تھے اور ہے۔جبکہ مزید کہنا ہے کہ امریکا نے بلاشبہ پاکستان کو امدادی قرضے دیئے اور عالمی بینک و دیگر عالمی اداروں کو پاکستان کے ساتھ مالی تعاون پر راضی کیا۔
مگر امریکا اور اس کے کہنے پر قرض دینے والے ممالک اور ان کی ایجنسیوں کی بدنیتی ان سے بڑ کر خود پاکستانی حکمرانوں کی ذاتی اعراض، مفاد پرستی، نااہلی اور ناقص کارکردگی کی وجہ سے ملنے والی امدادی اور قرضوں کی رقم پاکستان پہنچنے سے پہلے ہی اس میں ایک بڑا حصہ ہڑپ کریاجاتا ہے۔باقی بچھی ہوئی رقم کو لیئے گئے مقاصد میں خرچ نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ان رقوم سے کوئی بڑا اقتصادی معاملہ حل کیا جاتا ہے۔ جیسے یہ رقم پاکستان پہنچتی ہے یہاں کی بندر بانٹ کے بعد باقی رقم لیئے گئے قرضوں کی سود میں چلی جاتی ہیں۔
پاکستان شاید دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو حاصل شدہ قرضوں کی سود ادا کرنے کے لیے مزید قرضہ لے تا ہے، پاکستانی قوم شاید اس بات سے بے خبر ہے کہ پاکستان کی کئی تاریخی عمارتیں، ہوائی اڈے، شاہرا ہیں تک غیر ملکی قرضوں میں گروی رکھی جا چکی ہیں، ان قرضوں کی وجہ سے ملک کا ہرایک فرد بشمول ایک دن کے بچے سمیت ڈیڑھ لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ ایک طرف ملک دن بہ دن غیر ملکی اور عالمی اداروں کے قرضوں میں ڈوبتا جا رہا ہے ، تو دوسری طرف حکومت کے حصول کے لیے پاکستانی سیاسی جماعتوں کے رہنما ان ہی غیرملکی اداروں اور امریکاکو یہ پیشکش کر رہے ہیں کہ اگر ہمیں اقتدار دیا جائے تو ہم امریکا کو پاکستانی ایٹمی اثاثوں تک رسائی دے سکتے ہیں۔ ایک مذہبی جماعت کے رہنما کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے بھی امریکا کو پیشکش کی کہ اگر مجھے وزیراعظم بنادیا جائے اور اس مسند پر فائز ہونے کا موقع دیا جائے تو میں پاکستان اور افغانستان سے طالبان کا صفایاکرا دونگا، جبکہ ان کی اسی پیشکش کو بنیاد بنا کر عالمی اداروں نے ان کو اور ان کے گروپ کو طالبان سے تعلقات اور قریبی مفاہت ہے کہ الزام لگادیا ، تب ہی ان کو حالیاں الیکشن میں آوٹ کیا گیا۔
پاکستان سمیت پوری مسلم امہ کو اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے امریکا و دیگر مغربی طاقتیں ہر ممکن کوشش میں مصروف عمل ہے اور اسی کوشش میں وہ پاکستان کوہر و قت دبائو میں رکھنا چاہتے ہیں، اسی لیے وہ پاکستان کی ہر کمزوری کا بھر پور فائدہ بھی اٹھانا چاہتے ہیں۔ سابقہ حکومت کے اختتام کے ساتھ پاکستان بیرونی قرضوں میں اس بھوری طرح جکڑا ہوا ہے کہ آنے والی نئی حکومت سود کے قسطیں ادا کرنے کے لیے بھی سود پر ہی نیا قرضہ حاصل کرنا ہوگا، اس کے علاوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے نئی حکومت کے پاس ، بس یہی وہ کمزوری ہے جس کا فائدہ امریکا اور اس کے اتحادی اٹھاینگے۔
پاکستان کے خالی خزانے کو دیکھ کر عزت مآب امریکا بہادر یہ آس لگایئے بیٹھا ہے کہ کب پاکستان آئی ایم ایف کوسمری بھیجتا ہے کہ ہمیں قرضہ دو، جیسے ہی پاکستان آئی ایم ایف سے قرضے کی مانگ کرے گا امریکا کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ سخت ترین شرائط کے ساتھ پاکستان پر ایسا کاری وار کرے کہ پاکستان اقتصادی طور پر آئندہ اٹھ نہ سکے ، یوں وہ پاکستان پر اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کروانے میں کامیاب ہو جائیگا۔
پاکستان کے متوقع وزیر خزانہ اسد عمر نے نے کچھ دنوں قبل ایک بیان میں کہا کہ پاکستان قرضہ حاصل نہیں کرے گا ، بلکہ خود اپنے وسائل و دیگر ذرائع سے اقتصادی بحران پر قابوپانے کی کوشش کریں گے۔ ان کا یہ بیان خوش آئند ہے مگر ایسا ممکن نظر نہیں آتا کیوں کے اس نظام کوسمجھنے کے لیے اسد عمر صاحب کو کم و بیش ایک سال لگے گا اتنے میں عالمی دبائو کے نتیجے میں پاکستان حکومت مجبور ہوجائیگی قرضہ لے نے کے لیے۔
اس وقت پاکستان کو شدید مالی پریشانی کا سامنا ہے ایک طرف بیرونی قرضوں کی قسطیں پوری ہورہی ہے تو دوسری جانب ترقیاتی کاموں پر بھی بھاری بجٹ سرف ہوا ہے انہیں پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے بھی مزید بھاری رقم درکار ہے، اس کے لیے یا تو سود پر مزید قرضہ لے نا ہوگا ، جس کی طاق میں امریکا بیٹھا ہوا ہے ،کہ کب یہ آتے ہے اور میں ان کی کمزریوں کا فائد اٹھاتا ہوں ، یا پر پاکستان کی لوٹی ہوئی رقم جو غیر ملکی بینکوں میں پڑی ہوئی ہے اس کو جلد از جلد قومی خزانے واپس لائیں، اس کے لیے موثر قانون بنایا جائے ، فوج و عدلیہ سے بھی مدد لی جائے، یہ دونوں ادارے اس وقت ملک میں مقبول بھی ہے اور اپنے کام میں کامیاب بھی ، جس طریقے سے انہوں نے عام دہشت گردی کو قابو کیا اس طرح یہ معاشی دہشت گردوں کو بھی لگام ڈالنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
ایک طرف امریکا پاکستان کی نئی حکومت سے اچھے تعلقات چاہتا ہے ، دوسری طرف آئی ایم ایف کو دھمکی دی ہے کہ پاکستان کو نئے قرضے ہماری شرائط کے بغیر ادا نہیں کرے کیوں کہ ان قرضوں سے پاکستان چین کے قرضے ادا کرے گا ، جو امریکا کبھی نہیں چاہتاہے۔ مالی مسائل ،دہشت گردی کے مسائل آبی مسائل پڑوسیوں سے تعلقات اور دیگر کئی ساری پریشانیوں میں نئی حکومت شروع سے ہی جکڑے گی ،لیکن اگر یہ حکومت تحریک انصاف کی بنی تو مسلم لیگ (ن) بھی انکے گلے کی وہ ہڈی بن جائیگی کہ اس کو یہ نہ نگل سکے گی نہ ہی اوگل سکے گی ، (ن) لیگ اپنے بدلے سود سمیت لے گی ، یہاں بھی تبصرہ سود ہے ، ”امریکاوسودی قرضے، نئی حکومت کو درپیش مسائل” میں سے سب سے اہم مسائل ہے ان کو اب کی بار بننے والی نئی حکومت کیسے قابوکرتی ہے یہ تو آئندہ آنے والا وقت ہی بتائیگا ، اللہ تعالیٰ ہی میرے ملک پر رحم فرمائے(آمین)