مقبوضہ بیت المقدس (جیوڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے کہا ہے کہ شام کے شمال مشرقی علاقے سے امریکی فوجیوں کا انخلا داعش کے بچے کچھے جنگجوؤں کی شکست اور ترکی کے کرد جنگجوؤں سے برتاؤ اور تحفظ کی یقین دہانی سے مشروط ہے۔
انھوں نے اسرائیل کے دورے کے موقع پر مقبوضہ بیت المقدس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’شام سے امریکی فوجیوں کا انخلا بعض مقاصد کی تکمیل سے مشروط ہے لیکن یہ کوئی غیر معینہ وعدہ نہیں ہے۔پالیسی فیصلوں کے مطابق انخلا کا نظام الاوقات وضع کیا جائے گا‘‘۔
انھوں نے امریکی فوجیوں کے انخلا کی شرائط کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ شام میں داعش کی باقیات کی شکست اور امریکی فوجیوں کے ساتھ مل کر لڑنے والی کرد ملیشیا کے تحفظ سے مشروط ہے۔
جان بولٹن پہلے امریکی عہدے دار ہیں جنھوں نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ شام سے امریکی فوجیوں کا انخلا سست روی سے کیا جائے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ ماہ شام میں دوہزار فوجیوں کے انخلا کا اعلان کیا تھا لیکن انھیں اس فیصلے پر کڑی تنقید کا سامنا ہے اور اس پر اختلاف کرتے ہوئے وزیر دفاع جیمز میٹس نے استعفیٰ دے دیا تھا۔
جان بولٹن سوموار کو ترکی جارہے ہیں جہاں وہ ترک قیادت سے شام میں امریکا کے اتحادی کرد جنگجوؤں کے تحفظ کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔وہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن کو ایک سخت انتباہی پیغام بھی پہنچائیں گے کہ وہ کرد ملیشیا کے خلاف کارروائی سے گریز کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا نہیں خیال کہ ترک امریکا کے ساتھ مکمل رابطے کے بغیر کوئی فوجی کارروائی کریں گے۔ صدر ٹرمپ بھی واضح کرچکے ہیں کہ وہ ترکی کو کردوں کے قتل کی اجازت نہیں دیں گے۔ نیز امریکی فوجی ایران کی خطے میں بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے مقابلے کے لیے التنف کے اڈے پر موجود رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے کردوں سے کہہ دیا ہے کہ وہ خود اٹھ کھڑے ہوں اور وہ روس یا شامی صدر بشارالاسد کی حکومت سے تحفظ حاصل کرنے سے گریز کریں۔ انھوں نے کہا کہ چئیرمین جائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ اپنے ترک ہم منصب سے شام میں امریکا کے اتحادی کردوں کے تحفظ کے لیے مذاکرات کریں گے۔ ان کے علاوہ امریکی سفیر جیمز جیفرے بھی شام جائیں گے جہاں وہ داعش مخالف جنگ میں امریکا کے کرد اتحادیوں کو یقین دہانی کرائیں گے کہ انھیں تنہا نہیں چھوڑا جارہا ہے۔