امریکا اور طالبان کے مابین مذاکرات میں ’حقیقی پیشرفت‘

Negotiations

Negotiations

دوحہ (جیوڈیسک) امریکا اور افغان طالبان نے اپنے مذاکرات کے حالیہ دور کے اختتام پر ایک معاہدے کا ’مسودہ تیار کرنے اور حقیقی پیش رفت‘ کا عندیہ دیا ہے لیکن دو مسائل پر تاحال کوئی باقاعدہ اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔

امریکا کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طویل ترین سولہ روزہ مذاکرات کے نتیجے میں ایک ایسے معاہدے کا ’مسودہ‘ تیار کر لیا گیا ہے، جس میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کی واپسی کے نظام الاوقات اور انسداد دہشت گردی کی یقین دہانی جیسے اُمور شامل ہیں۔

خلیل زاد کے مطابق امن کے لیے حالات سازگار ہوئے ہیں اور فریقین جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’نشیب و فراز کے باوجود ہم نے چیزوں کو راستے پر رکھا اور حقیقی پیش رفت کو ممکن بنایا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’امن کے لیے چار مسائل پر کوئی معاہدہ ضروری ہے۔ انسداد دہشت گردی کی یقین دہانی، غیرملکی افواج کا انخلاء، افغانوں کے مابین مذاکرات اور ایک جامع جنگ بندی۔‘‘ زلمے خلیل زاد کے مطابق ان میں سے پہلے دو مسائل پر اتفاق کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مذاکرات کا آئندہ دور واشنگٹن میں ہو سکتا ہے لیکن انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب تک تمام امور پر اتفاق رائے نہیں ہو جاتا کوئی حتمی معاہدہ نہیں کیا جائے گا۔‘‘

مذاکرات میں شامل فریقین کے مطابق دوحہ مذاکرات میں امریکی افواج کے انخلاء اور اس بات پر توجہ مرکوز کی گئی کہ افغان سرزمین کو مستقبل میں کسی بیرونی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ سن دو ہزار ایک کے نائن الیون حملے کے بعد بننے والی امریکی پالیسی میں یہی بات شامل تھی۔

دوسری جانب افغان طالبان کے ترجمان نے بھی اس کی تصدیق کی ہے، ’’ان دونوں مسائل کے حوالے سے پیش رفت ہوئی ہے۔ اب اطراف حاصل کردہ پیش رفت پر غور کریں گے، اپنے رہنماؤں سے اس کا تبادلہ کریں گے اور آئندہ مذاکرات کی تیاری ہو گی۔ ‘‘

افغان حکومت ان مذاکرات میں براہ راست شامل نہیں ہے لیکن اس کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان ہارون چاخان سوری کا کہنا تھا، ’’ہم طالبان کے ساتھ ایک جامع جنگ بندی اور افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے حوالے سے پر اُمید ہیں۔‘‘

قبل ازیں ایسی خبریں بھی منظر عام پر آئی تھیں کہ اٹھارہ سالہ افغان جنگ کے خاتمے کے لیے امریکی فورسز آئندہ پانچ برسوں میں افغانستان سے مکمل انخلاء کر سکتی ہیں۔ دوسری جانب طالبان نے چھ ماہ کے اندر اندر امریکی افواج کے انخلاء کا مطالبہ کر رکھا ہے۔