امریکا (جیوڈیسک) ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کے خلاف نئی اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق یہ پابندیاں ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور علاقے میں تناؤ کا سبب بننے کی وجہ سے عائد کی جا رہی ہیں۔
امریکا ایسے 18 افراد اور اداروں کے خلاف پاپندیاں عائد کر رہا ہے جن پر شبہ ہے کہ انہوں نے ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور دیگر ملٹری سرگرمیوں میں معاونت کی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی خاتون ترجمان ہیدر نوئرٹ نے ایران پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی براہ راست خلاف ورزی کرتے ہوئے بیلسٹک میزائل کے تجربات کرنے کے علاوہ مزید تیار کر رہا ہے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق نوئرٹ کا مزید کہنا تھا کہ امریکا اس بات پر شدید تحفظات رکھتا ہے کہ ایران پورے مشرق وسطیٰ میں ایسی نقصان دہ سرگرمیوں میں مصروف ہے جو علاقائی استحکام، سلامتی اور ترقی کو متاثر کر رہی ہیں۔ نوئرٹ کے مطابق ان میں دہشت گرد گروپوں، شامی حکومت اور یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت کا عمل بھی شامل ہے۔
نوئرٹ کے مطابق امریکی محکمہ خزانہ کی طرف سے نئی پابندیاں دراصل ایران کی طرف سے ان مسلسل خطرات کے تناظر میں عائد کی گئی ہیں۔ امریکا کے محکمہ خزانہ کی طرف سے کہا گیا کہ جن افراد اور اداروں کو پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے ان پر ایرانی فوج کے لیے ڈرونز کی تیاری اور دیگر ملٹری ساز وسامان کی تیاری میں مدد کا الزام ہے۔
ایران پر پابندیاں عائد کرنے کا یہ اعلان ٹرمپ انتظامیہ کے اس انتباہ کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ تہران حکومت عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015ء میں کیے گئے جوہری معاہدے پر درست طریقے سے عمل نہیں کر رہا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے کی کئی بار مخالفت کر چکے ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ان کا کہنا تھا کہ وہ صدر بننے کی صورت میں اس معاہدے کو ختم کر دیں گے۔ اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو روکنا تھا اور اس کے بدلے اس پر عائد اقوام متحدہ کی اور دیگر بین الاقوامی پابندیاں ختم کی جانا تھیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ہیدر نوئرٹ کے مطابق امریکی انتظامیہ ایران کے حوالے سے امریکی پالیسی پر نظر ثانی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔
ایران کے خلاف یہ نئی پابندیاں ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہیں جب ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اس ہفتے نیویارک میں قائم اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز کا دورہ کرنے والے ہیں۔ ایرانی دفتر خارجہ کی طرف سے کہا گیا تھا کہ جواد ظریف متوقع طور پر اس دورے کے دوران جوہری معاہدے کے معاملے پر امریکی حکام سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔