بغداد (جیوڈیسک) ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف امریکا سے کشیدگی کے تناظر میں دوسرے ممالک کے طوفانی دورے کررہے ہیں اور وہ ہفتے کی شب عراق کے دوروزہ سرکاری دورے پر بغداد پہنچ گئے ہیں۔
ان کی آمد سے چندے قبل عراقی پارلیمان کے اسپیکر محمد الحلبوسی نے کہا ہے کہ اگر ان کے ملک سے کہا جائے تو وہ امریکا اور ایران کے درمیان ثالثی کے لیے تیار ہے۔
محمد الحلبوسی نے عراق سے سرکاری ٹیلی ویژن چینل سے نشر ہونے والے بیان میں کہا ہے کہ’’ اگرہم سے کہا جاتا ہے تو ہم واشنگٹن اور تہران کے درمیان جاری بحران کے حل کے لیے ثالثی کرانے کو تیار ہیں لیکن ابھی تک عراق سے ایسی کوئی باضابطہ درخواست نہیں کی گئی ہے‘‘۔ عراق کے امریکا اور ایران دونوں سے قریبی تعلقات استوار ہیں اور ملک کے بااثر شیعہ لیڈر مقتدیٰ الصدر نے اگلے روز ایک بیان میں کہا تھا کہ عراق کو امریکا اور ایران کے درمیان جاری تنازع سے دور ہی رکھا جائے۔
عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے اسی ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کی حکومت امریکا اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی کے خاتمے کے لیے اپنے وفود واشنگٹن اور تہران بھیجے گی۔انھوں نے واضح کیا تھا کہ عراق اس تنازع میں غیر جانبدار ہے۔
واضح رہے کہ 19 مئی کو بغداد کے انتہائی سکیورٹی والے علاقے گرین زون میں واقع امریکی سفارت خانے کی جانب ایک راکٹ فائر کیا گیا تھا اور یہ سفارت خانے کی عمارت سے ایک کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر واقع علاقے میں گرا تھا۔اس سے کوئی جانی نقصان ہوا تھا اور نہ کسی گروپ نے اس راکٹ حملے کی ذمے داری قبول کی تھی لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ راکٹ بغداد کے مشرقی علاقے کی جانب سے فائر کیا گیا تھا۔اس علاقے میں شیعہ ملیشیاؤں سے وابستہ جنگجو رہ رہے ہیں اور ایک طرح سے ان کا وہاں مکمل کنٹرول ہے۔
ایران کی سرکاری خبررساں ایجنسی کے مطابق وزیر خارجہ جواد ظریف بغداد میں قیام کے دوران میں اپنے عراقی ہم منصب محمد الحکیم ، صدر برہام صالح اور وزیراعظم عادل عبدالمہدی سے ملاقات کریں گے۔عراق کی وزارت خارجہ کے ترجمان احمد صحاف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جواد ظریف خطے کی صورت حال اور باہمی دلچسپی کے دوسرے امور کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گے۔
جواد ظریف نے جمعہ کو پاکستان کا دورہ کیا تھا اور اسلام آباد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی۔انھوں نے امریکا، ایران کشیدگی کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو سراہا تھا ۔
واضح رہے کہ امریکا نے مشرقِ اوسط کے خطے میں اپنے مفادات کو لاحق خطرات کے پیش نظر اسی ماہ کے اوائل میں اپنا ایک اور طیارہ بردار بحری بیڑا اور بی 52 بمبار طیارے بھیجے ہیں۔اس کے علاوہ مزید ڈیڑھ ہزار فوجی بھی خطے میں بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گذشتہ سال مئی میں ایران اور چھے بڑی طاقتوں کے درمیان طے شدہ جوہری سمجھوتے سے یک طرفہ طور پر انخلا کا اعلان کردیا تھا۔اس کے بعد سے اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔امریکا نے گذشتہ سال نومبر میں ایران پر دوبارہ سخت اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں جس سے اس کی معیشت زبوں حال ہوچکی ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ مؤقف رہا ہے کہ 2015ء میں طے شدہ جوہری سمجھوتا ایران کی جوہری ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت کو مسدود کرنے میں ناکام رہا ہے۔نیز وہ ایران کو خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے تخریبی سرگرمیوں محدود کرنے یا مسلح گروپوں کی حمایت سے روکنے میں بھی ناکام رہا ہے۔