تحریر : عنایت کابلگرامی گیارہ ستمبر 2001 کو امریکا میں دہشتگردی کے تین واقعات رونما ہوئے، جس کا الزام امریکا نے اسامہ بن لادین پر عائد کر دیاتھا، اسامہ بن لادین ان دنوں افغانستان میں موجود تھے، امریکا نے اس وقت افغانستان کی حکومت (اس وقت افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی) پر شدید دباؤڈالاکے وہ اسامہ بن لادین کو امریکا کے حوالے کر یں، لیکن طالبان حکومت کے سربراہ ملا عمر نے انکار کردیا، جس کے جواب میں امریکا نے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں امریکا کا ساتھ دنیا کے چالیس سے زائد ملکوں نے دیا، اس کے ساتھ کچھ اسلامی ممالک نے بھی بھر پور حمایت اورتعاون پیش کی۔ جس میں پاکستان کا نام بھی فہرست رست رہا، اس وقت کے غاصب و ڈکٹیٹر صدر جنرل(ر) پرویز مشرف نے پاکستان کی زمین کو افغانستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دے ڈالی۔
افغانستان پر امریکی حملے اور پرویز مشرف کے غیر ذمہ دارانہ فیصلے نے پاکستان میں موجود سیاسی دینی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا ہونے کا موقع فراہم کیا اور چھ دینی جماعتیں ایک آواز بن کر ابھری، ایک اتحاد قائم کیا، اس اتحاد کا نام متحدہ مجلس عمل رکھا گیا، جس کی صدارت مولانا شاہ احمد نورانی (مرحوم) نے کی۔اس چھ جماعتی اتحاد نے امریکی جارحیت کے خلاف اور پرویز مشرف کے امریکا کواڈے فراہم کرنے کے خلاف بھر پور عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا، بڑے بڑے مارچ کئے، مگر پرویز مشرف کو اپنے فیصلہ واپس لے نے پر قائل یا مجبور نہیں کرسکی۔
10 اکتوبر 2002کو پاکستان کے ڈکٹیٹرصدر پرویز مشرف نے عام انتخابات کروائے، جس کے نتائج کچھ یوں تھے، پاکستان مسلم لیگ (ق) نے 118 قومی اسمبلی کے سیٹس حاصل کئے (واضح رہے مسلم لیگ (ق) کو جنرل پرویز مشرف کی حمایت حاصل تھی) پاکستان پیپلز پارٹی نے 62، اور دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نے 57سیٹس پر قبضہ جمایا،(اقلیتی اور خواتین کی نشستوں کو ملاکر تعداد 63بن گئی)، جبکہ صوبہ خیبر پختون خواہ (اس وقت صوبہ سرحد) کی صوبائی حکومت مجلس عمل کی حصے میں آئی اور بلوچستان میں وہ اتحادی بنے صوبائی حکومت کے۔
2002 کے عام انتخابات کے بعد مولانا فضل الرحمن قومی اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل کی جانب سے وزیر اعظم کے امیدوار، جبکہ امین فہیم،پیپلزپارٹی جبکہ میر ظفراللہ خان جمالی مسلم لیگ (ق) کے امیدوار رہے اورمیر ظفراللہ خان جمالی نے ایک سو بہتر ووٹ حاصل کئے اور وزیر اعظم منتخب بھی ہوئے۔
متحدہ مجلس عمل کو عوام نے جس مقصد کے لئے ووٹ دیئے وہ مقصد دین اسلام اور شعائر اسلام کا تحفظ تھا، لیکن متحدہ مجلس عمل اس میں یکسرناکام رہی۔ مثال کے طور پر ایک چھوٹا سا واقعہ، ستمبر 2003کے پہلے ہفتے قومی اسمبلی کے ایک اجلاس میں وفاقی وزیر تعلیم زبیدہ جلال نے ایک بل اسمبلی میں پیش کیا جس میں لکھا گیا تھا کہ، sscپارٹ ون اور پارٹ ٹوکے اسلامی بک سے سورةا لتوبة کی وہ آیاتیں جس میں جہاد کا حکم ہے ان کو بک سے نکال دی جائیے، جیسے ہی بل لیکر زبیدہ جلال صاحبہ اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس روانہ ہوئی تو اس وقت قومی اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل کے چالیس سے زائد ارکان موجود تھے کسی نے کوئی آواز نہیں اُٹھائی تو ایک مرد قلندر جناب مولانا اعظم طارق (مرحوم) نے اپنی نشست سے کھڑے ہوکر زبیدہ جلال سے بل کے پیپر لیتے ہی پھاڑ دیئے اور کہا جب تک میں زندہ ہوں یہ ممکن نہیں کہ آپ اسی جرات دوبارہ کروگی۔ اس کے ایک ماہ بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لئے آتے ہوئے مولانا اعظم طارق کو راستے میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا اور ان کی شہادت کے کچھ عرصہ بعد ایک مرتبہ پھر سے قومی اسمبلی میں وہی بل لایا گیا اور مجلس عمل کے ساٹھ سے زائد اراکین کے موجودگی میں بل منظور کرادیا گیا اور اس طرح sscپارٹ ون و ٹو سے جہادی مضامین ختم کردئے گئے۔ اس کے علاوا اور بھی کئی واقعات ہے،لیکن وہ اس تحریر کو ضخیم کتاب کی جانب لے جاسکتی ہیں۔
مولانا نورانی کے انتقال کے بعد مجلس عمل میں اختلافات شروع ہوگئے تھے اور وہ اس مقصد سے دور ہوتی گئی جس مقصد کے لئے عوام باالخصوص صوبہ سرحد کی عوام نے ان کو ووٹ دیا تھا، مجلس عمل میں اختلافات اس وقت شدت اختیار کرگئے جب 2005میں بلدیاتی انتخابات ہونے لگے، مجلس عمل کی دوبڑی جماتیں سیٹ ایڈجسٹ کے مسائل پر الج گئی اور اس کی وجہ سے مجلس عمل ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہوگئی، 2008کے عام انتخابات میں مجلس عمل نے بغیر جماعت اسلامی کے حصہ لیا، جبکہ 2013میں کافی کوشش کی مولانا فضل الرحمن صاحب نے کہ مجلس عمل بحال ہوجائے مگر قائد کے انتخاب میں اختلاف کی وجہ سے مجلس عمل بحال نہ ہوسکی اور اس سال الیکشن میں مجلس عمل میں شامل ہر مذہبی جماعت نے اپنے اپنے پلٹ فارم سے حصہ لیا۔ اب جب2018کے الیکشن قریب ہونے لگے توا یک مرتبہ پھر سے مولانا فضل الرحمن صاحب مجلس عمل کی مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہوگئے، کئی اجلاسات کے بعد بلاخر 13دسمبر بروز بدھ کو کراچی میں مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم کے گھر میں ایک طویل اجلاس کے بعد مجلس عمل کو بحال کرنے کا اعلان کردیاگیا، اجلاس میں اس مرتبہ پانچ مذہبی جماعتوں نے شرکت کی،جس میں مولانا سمیع الحق کی جماعت شامل نہیں، ان کومولانا فضل الرحمن پر اعتراضات ہے، اس لئے وہ مجلس عمل کا حصہ نہیں بنے۔
اب ایک سوال اُٹھتا ہے کہ کیا مجلس عمل کی بحالی سے وہ اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کر پائیگی؟ کیا وہ 2002والا پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے گی؟ مگر مجھے نہیں لگتا کہ وہ کامیاب ہوسکے گی، کیوں کہ مجلس عمل نے 2002کے عام انتخابات کے بعد عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا نہیں کیا اور نہ ہی ان کی صوبائی حکومت نے کوئی راس اقدامات کئے جس کی وجہ سے اب 2018میں وہ عوام سے ووٹ مانگے۔
دوسرا یہ کہ کیا پاکستان میں صرف یہی پانچ یا چھ دینی جماعتیں ہیں جو ووٹ بینک رکھتی ہیں؟ جواب نفی، نہیں پاکستان میں ان چھ جماعتوں کے علاوا اور بھی دینی جماعتیں موجود ہیں جو بڑی تعداد میں اپنا ووٹ بینک رکھتی ہے، جیسے کہ اہلسنت والجماعت، ملی مسلم لیگ، لبیک یارسول اللہ، وغیرہ وغیرہ، ان میں اہلسنت والجماعت کا ایک بہت بڑا ووٹ بینک ہے، 2013کے الیکشن میں اگر انہوں نے کوئی سیٹ حاصل نہیں کی لیکن کراچی کے تقرباََ تمام صوبائی اسمبلی کے سیٹس پر الیکشن لڑی اور کئی سیٹس پر دوسری، تیسری پوزیشن حاصل کئے، 2013کے الیکشن میں صوبہ سندھ میں سب سے زیادہ جس مذہبی جماعت نے ووٹ حاصل کئے وہ یہی جماعت ہے۔ پنجاب و ہزارہ میں بھی اہلسنت والجماعت کا بہت بڑا ووٹ بینک موجود ہے، اس کے علاوہ ملی مسلم لیگ نے بھی حالیہ این ائے 120کی ضمنی الیکشن میں حصہ لیکر تیسری پوزشن حاصل کر کے سب کی نیندیں حرام کردی، ان جماعتوں کو مجلس عمل کا حصہ نہیں بنانے سے مجلس عمل کو ہی نقصان ہوگا، مذہبی ووٹ تقسیم ہوگا،کیوں پہلے سے ہی دینی حلقوں میں مجلس عمل اپنا وقار کھوچکی ہے، اگر اس مرتبہ ان جماعتوں مجلس عمل میں شامل نہیں کیا، تو مشکل نہیں تقرباََ ناممکن نظر آتی ہے 2018کے الیکشن میں مجلس عمل کی کامیابی۔ کیا مجلس عمل اپنا وقار بحال کر سکے گی؟یہ مولانا فضل الرحمن اور اس کی جماعت پر ڈیپنڈ کرتا ہے۔ ۔۔یااللہ میرے ملک پاکستان کو امن کا گہورہ بنا (آمین)