امریکا میں بڑھتے ہوئے تشدد کے رجحان نے ترقی یافتہ ممالک کی عوام کو اپنے ملک میں رائج نظام اور ریاست کے کردار پر سوچنے پر مجبور کردیا ہے ۔ غریب اور تر قی پذیر ممالک کے باشندے کا خواب ہوتا ہے کہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک جا کر اپنی زندگی کو سہل و آسائش سے آراستہ کرے اور اپنا مستقبل بہتر بنالے ۔ تاہم جس طرح مغربی ممالک میں تشدد کا بڑھتا رجحان ہر روز اپنی ہولناکی کو لیکر آرہا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مکافات عمل کا قانون سب کے لئے یکساں ہے۔ مغربی ممالک نے اپنی ترقی کے لئے انسانوں کووافر سہولیات دینے کے بجائے انسانوں کو تباہ کرنے والے وسائل پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی ۔ زیادہ سے زیادہ تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی وجہ سے کمزور و ترقی پذیر ممالک کی معیشت پر قبضہ کیا ۔ جدید دور میں معاشی طور پر آزاد ممالک کو غلام بنایا ۔ اپنے فروعی مقاصد کے لئے من چاہی پالیسیاں نافذ کیں ۔ جہاں دیکھا کہ کوئی ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کررہا ہے ، اُسے عالمی سیاسی سازشوں کا مرکز بنا ڈالا ۔ جہاں سیاسی رسوخ استعمال نہیں ہوسکا وہاں نسلی تو کہیں مذہبی خانہ جنگیوں سے اُس مملکت کو کمزور کردیا ۔ کمزور ممالک کی نئی اور نوجوان نسل کے ہاتھوں میں قلم کے بجائے ہتھیار دے دیئے ، جو ہاتھ اپنی معصومیت کے ساتھ کتابیں اٹھانے کے لئے تھے ، ان ہاتھوں میں بھاری ہتھیار آگئے ۔ خانہ جنگیوں میں معصوم بچوں کا استعمال بڑھتا چلا گیا۔ جہاں بچے کسی دشمن گروپ کے لئے سب سے خطرناک ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
یہاں تک کہ دنیا کا سب خطرناک ہتھیار خودکش بمبار بھی بچوں کو بنایا گیا ۔ا مریکا میں اسکولوں میں ہونے والے واقعات کو مغربی ذرائع ابلاغ دہشت گردی تصور نہیں کرتے ۔ انسانی جانوں کی ہلاکتوں کے ذمے داروں کو زیادہ تر نفسیاتی مریض قرار دیا جاتا ہے ۔ گزشتہ دنوں امریکی ریاست ٹیکساس کے ایک اسکول میں پیش آنے والے واقعے کو بھی دہشت گردی کا واقعہ تسلیم نہیں کیا گیا بلکہ امریکی طالب علم کو نفسیاتی مریض قرار دیا گیا ۔ اس دہشت گردی کے واقعے میں پاکستانی طالب علم سبیکا بھی شدت پسندی کا نشانہ بنی ۔ اس کے خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے ۔ نوجوان نہتی طالب علم دہشت گردی کے شکار ملک سے ایک ایسی مملکت گئی جس نے دنیا بھر میں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جنگ مسلط کر رکھی ہے ۔ دنیا کو دہشت گردی کے لعنت سے پاک کرنے والا دراصل خود دہشت گردی کا موجد ہے ۔ امریکا کے نظام میں معاشرتی و اخلاقی پس ماندگی و انحطاط پزیری اس قدر عروج پر ہے کہ امریکا کا کوئی گوشہ بھی خود امریکی شہریوں کی دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہے۔ نسل پرستی اور اقلیتوں کے خلاف مذہبی عدم برداشت اور بالخصوص اسلام فوبیا ہونے کی وجہ سے امریکی نظام معاشرت کا ڈھانچہ توہم پرستی ، بے یقینی اور تشدد کی بدترین مثال بن کر سامنے آیا ہے ۔ کراچی کے علاقے گلشن اقبال سے جانے وا لی پاکستانی طالبہ سبیکا کا پورا خاندان اجڑ گیا ۔ یہ سبیکا کے خاندان کے لئے بہت بڑا سانحہ ہے جس کا گھائو انہیں ہمیشہ امریکی دہشت گردی کی یاد دلاتا رہے گا ۔گوکہ ہم سب اچھے طرح جانتے ہیں کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب و مسلک نہیں ہوتا ۔ دہشت گردی شدت پسندی اور انتہا پسندی کسی بھی قوم اور کسی بھی شخص میں مختلف محرکات کے سبب وجود میں آتی ہے۔ رواں برس امریکا میں تقریباََ ہر ہفتے اسکول میں دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوا جس میں نہتے طالب علموں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاچکا ہے۔
امریکا میں اسکولوں میں ہونے والی شدت پسندی کے واقعات کے علاوہ بھی متعدد ایسے واقعات ہیں جس میں امریکا کے اندر دہشت گردی کی جانب بڑھتا رجحان نمایاں دکھائی دیتا ہے ۔اہم بات یہ ہے کہ امریکا ان تمام واقعات میں سب سے پہلے کسی مسلمان کے ملوث ہونے کی تلاش کرتا ہے ۔ پھر ان کی تفتیش کا رخ داعش یا دیگر شدت پسند تنظیموں کی جانب ہوتا ہے ۔ امریکا میں متواتر دہشت گردی کے ان واقعات کو ایک خاص نکتہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ امریکا میں اسکولوں اور دیگر واقعات میں امریکی فرد کے ملوث ہونے کی وجوہات دراصل سماجی ہیں۔امریکی معاشرے میں نفسیاتی مسائل اور جدید ترین ہتھیاروں کے حصول میں آسانی اور عدم برداشت کے ساتھ ان واقعات کو نفسیاتی مسائل سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ امریکی فرد کے واقعے میں ملوث ہونے میں تشدد پر مبنی مواد ، فلمیں اور ویڈیوز گیمز کو بھی ذمے دار قرار دیا جاتا ہے۔ امریکا اپنے شہریوں کی جانب سے شدت پسندی کو خاندان کی جانب سے عدم نگرانی ، دماغی بیماری، غفلت ، پریشانی اور اپنی جانب متوجہ نہ کرانے کا رجحان سمجھتا ہے۔ آتشی خود کار خطرناک اسلحہ کی پالیسی پر بھی بحث کی جا رہی ہے۔تو دوسری جانب یہاں امریکا کے سیکورٹی سسٹم پر بات کی جا رہی ہے کہ مسلسل ایسے واقعات رونما ہونے کے باوجود کوئی طالب علم کس طرح خطرناک اسلحہ اسکولوں میں لے جانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
امریکا کا سیکورٹی سسٹم اسکولوں کی نگرانی میں اپنی خامیوں پر نظر رکھنے کے بجائے اُن اسباب پر غور کرنے کو تیار نظر نہیں آتا جس میں کوئی طالب علم خطرناک اسلحہ لیکر کس طرح اسکول میں با آسانی داخل ہوجاتا ہے۔ ٹیکساس کے شہر سانتافے کے اسکول میں 17برس کے شدت پسند نے اپنے اسکول کی کلاس میں داخل ہوکر شاٹ گن اور پستول سے فائرنگ کی ۔ بتایا گیا ہے کہ حملہ آور جو اسی اسکول کا طالب علم تھا ۔ اس نے حملے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی ہوئی تھی ۔ حملے کے آخر میں خود کشی کرنا چاہتا تھا لیکن خو ف کی وجہ سے نہیں کرسکا ۔ دہشت گردی کے واقعات کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو رواں برس امریکا میں 22جنوری کو نیو اولینز لوسانیا کے اسکول کی کار پارکنگ میں فائرنگ کا پہلا واقعہ رونما ہواتھا۔اسی دن ٹیکساس کے ہی ایک اسکول میں ایک طالب علم نے اپنے کلاس میٹ کو فائرنگ کا نشانہ بنایا۔ 23جنوری کے ریاست کینٹکی کے شہر بینٹن سٹی کے ایک اسکول میں طالب علم نے فائرنگ کی ۔ مارشل کاؤنٹی ہائی اسکول میں فائرنگ کے نتیجے میں دو طالب علم ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوگئے۔ یکم فروری کو کیلیفورنیا میں طالب علم نے کلاس روم میں فائرنگ کی۔ 14فروری کو میامی شہر کے علاقے ماجوری اسٹون کے ڈگلس ہائی اسکول ، پارک لینڈ فلوریڈا میں فائرنگ کا بڑا واقعہ رونما ہوا جس میں17 افراد ہلاک جبکہ50سے زاید زخمی ہوئے۔ اس واقعے کا سب سے اہم پہلو جو سامنے آیا وہ یہ تھا کہ 17افراد کو ہلاک کرنے والے دراصل سفید فام باشندوں کی نسلی برتری کی سوچ کے حامل قرار دیئے گئے۔نکولس کروز نامی حملہ آور کی جانب سے ساتھی طلبہ کو دھمکانے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر پریشان کن پیغامات اور آتشی اسلحے کی تصاویر پوسٹ کرنے جیسی سرگرمیوں پر اسکول سے خارج تو کردیا گیا لیکن نکولس کروز کی متشدد سوچ کو امریکا کی سیکورٹی سسٹم نے نظر انداز کئے رکھا۔ اس کا اعتراف ایف بی آئی نے بھی کیا کہ ان کی سستی اور کوتاہی کے سبب نکولس کروز کے خیالات جاننے کے باوجود لاپرواہی برتی گئی۔
نکولس کروز نے ریپبلک آف فلوریڈا نامی اُس گروہ میں شمولیت اختیار کی ہوئی تھی جو سفید فام نسلی برتری کے لئے متشدد نظریئے کے حامل تھے۔ اہم توجہ طلب بات یہ بھی سامنے آئی کہ جب نکولس کروز کو اسکول سے خارج کیا گیا تو اسی اسکول کے 300طالب علموں نے اس فیصلے کو عجیب اور دہمکی آمیز قرار دیا تھا۔ 07مارچ کوہاف مین ہائی اسکول برمنگھم الباما میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ۔ جبکہ20مارچ کو میری لینڈ میں فائرنگ کا واقعہ ہوا جس میں 1500طالب علموں کے گریٹ ملز ہائی اسکول میں ایک طالب علم آسٹن واٹ رولنزنے فائرنگ کی تھی جس میں دو طالب علم زخمی اور حملہ آور نے خودکشی کرلی تھی۔ بتایا گیا کہ حملہ آور کا تعلق اسی اسکول تھا۔ تاہم طالب علم اسلحہ لیکر اسکول میں کیسے داخل ہوگیا اس کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا جا سکا۔ گزشتہ دنوں18مئی کو سانتا فے ہائی اسکول میں فائرنگ کرکے دس افراد کو ہلاک کردیا گیا۔واضح رہے کہ رواں برس کے علاوہ بھی امریکا میں اسکولوں میں شدت پسندی کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق اکتوبر2015 میں اوریگن کے کمیونٹی کالج میں 9 طلبہ اورایک استاد سمیت10 افراد کو قتل کیا گیا۔ سال 2012 میں 15 جنوری کو کینٹی کٹ میں اسکول میں فائرنگ ہوئی جس میں 3 طالبعلم قتل ہوئے۔ اپریل2012 میں کیلیفورنیا کی یونیورسٹی میں فائرنگ ہوئی 7 طالب علم ہلاک ہوئے۔ جبکہ 14 دسمبر 2012 کو کینٹی کٹ اسکول میں امریکی شہری نے فائرنگ کرکے اپنی والدہ اور طالبعلموں سمیت 26 افراد کو قتل کیا اور پھر خود کشی کرلی۔ 16 اپریل 2007 کو ورجینیا کی یونیورسٹی مقتل گاہ بنی جہاں 32 سالہ طالب علم نے فائرنگ کرکے اساتذہ اور طالبعلموں سمیت 27 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا اور پھرخود کشی کرلی۔ اپریل 1999 میں بھی 2 طالب علموں نے کولوراڈو کے ہائی اسکول میں فائرنگ کرکے ساتھی طلبا اور اساتذہ سمیت 12 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔رواں برس اسکولوں میں دہشت گردی کی 18ویں واردات تھی۔
امریکا میںاسکول میں فائرنگ کے علاوہ متعدد ایسے بڑے بڑے واقعات بھی ہیں جس میں امریکی شہریوں نے نہتے عوام کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ امریکا ان دہشت گردی کی واقعات کو صرف نفسیاتی پس منظر میں دیکھتا ہے اور فروعی طور اس قسم کے امریکی شہری سے ہونے والے فعل کودماغی خلل سے تعبیر کرتا ہے ۔جس پر امریکی عوام خود اپنی حکومت سے نالاں نظر آتے ہیں۔فلوریڈا میں اسکول کے طلبہ نے اسلحہ کے استعمال کے خلاف ایک بڑی ریلی نکال کرامریکی سیاست دانوں پر شدید تنقید کی تھی ۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ رائفل ایسوسی ایشن سے فندز لینے والے سیاست دانوں کو شرم آنی چاہیے۔صدر ٹرمپ نے رائفل ایسوسی ایشن سے رابطے کئے تھے جس پر مظاہرین نے شرم کر شرم کرو کے بینرز اٹھا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔مظاہرے کے منتظمین نے اپنی ویب سائٹ پر کانگریس پر یہ الزام عائد کیا کہ’کانگریس دعائیں اورٹویٹ کرنے بجائے اسلحے کے ذریعے اسکولوں میں ہونے والے پرتشدد واقعات خلاف عملی اقدامات کرے’۔امریکا میں خود کار ہتھیاروں کے حوالے سے پالیسی متنازع رہی ہے جس پر امریکی عوام کی جانب سے احتجاج بھی کیا جاتا رہا ہے تاہم امریکی کانگریس اپنے ملک میں اسلحے سے پاک کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تاہم اس حوالے سے امریکا کی عالمی پالیسیا ں کو سمجھنابھی بہت ضروری ہے کہ امریکا نے اپنے مالی اخراجات پورے کرنے کے لئے پوری دنیا میں مختلف ممالک میں خانہ جنگی مسلط کر رکھی ہے۔ خاص طور پر اسلامی ممالک کے درمیان باہمی چپقلش سے امریکا پوری طرح فائدہ اٹھا رہا ہے۔گزشتہ دنوں بد نام زمانہ جینا ہسپل کو امریکن سی آئی اے کی پہلی خاتون سربراہ بنا دیا گیا ۔ جینا ہسپل کو قیدیوں پر واٹر بورڈنگ کے الزامات کا سامنا بھی تھا ۔ واٹر بورڈنگ تشد د کا ایک ایسا طریقہ ہے جس میں قیدی پر اس طرح پانی پھینکا جاتا ہے جس سے اُسے لگتا ہے کہ جیسے وہ پانی میں ڈوب رہا ہے۔ حراستی مراکز گوانتانمو میں قیدیوں پر انسانیت سوز تشدد و سلوک کی وجہ سے دنیا بھر میں امریکا کو تنقید کا نشانہ بنایاچکا ہے۔امریکا کے خلاف 2012میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم نے الزام عائد کیا تھا کہ سی آئی اے اہلکار زیر حراست قیدیوں کو تشدد کے علاوہ واٹر بورڈنگ کا بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ اسی طرح امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں واٹر بورڈنگ کو پسندیدہ قرار دے چکے ہیں ان کا ماننا ہے کہ اس سے بھی زیادہ سخت رویہ اختیار کرنا چاہیے ۔ موجودہ سی آئی اے کی سربراہ جینا ہسپل کو بھی واٹر بورڈنگ کا حامی تصور کیا جاتا ہے۔امریکا کی متشدد پالیسیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ تشدد کے فروغ کو ترجیح دیتی ہے۔
یہ امریکی معاشرے میں تشدد کی جانب رجحان کا ایک تاریک گوشہ ہے ۔ جب خود امریکی صدر اور ان کی انٹیلی جنس سربراہ تشدد کے اسے مراحل کی حامی ہوں جس میں انسانیت کی کوئی اقدار شامل نہ ہو تو امریکی شہری خود کو تشدد آمیز سوچ سے کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔امریکی معاشرے میں سب سے خطرناک رجحان جدید خود کار ہتھیاروں کا استعمال ہے۔ خود کار جدید ہتھیاروں کی وجہ سے امریکی معاشرے میں تشدد کو بے پناہ فروغ حاصل ہوا ہے ۔ امریکا نے نائن الیون کے بعد نئے سیکورٹی پلان میں دہشت گردی کے خلاف کئی مربوط منصوبے بنائے لیکن خود کو خود کار ہتھیاروں سے محفوظ نہیں رکھ سکا ۔ اس وقت ہر امریکی کے پاس اوسطََ کئی خود کار مہلک آتشی اسلحہ موجود ہے۔ نیز اس کے استعمال و حصول پر موثر قانون سازی بھی موجود نہیں ہے۔ اسی سقم کا فائدہ اٹھا کر اسکولوں میں ہونے والی فائرنگ میں طالب علموں نے اپنے گھروں سے خود کار ہتھیاروں کو دہشت گردی کے واقعات میں استعمال کیا ۔امریکی معاشرہ میں پُر تشدد ویڈیوگیمز کو بھی ذمے دار سمجھا جاتا ہے ۔ جس میں خاندان کی جانب سے بچوں پر عدم توجہ کے رجحان کی وجہ سے بچے تنہائی اور خود نفسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔امریکی معاشرے کے خانگی مسائل بھی بچوں میں عدم برداشت کا سبب بن رہا ہے ۔ مصروف ترین زندگی اور زوجین کے درمیان تلخیوں اور جھگڑوں کی وجہ سے براہ راست ان کے بچے متاثر ہوتے ہیں۔ اسی طرح امریکی باشندوں کی بڑی تعداد بے روزگاری کے سبب بھی سخت تنائو کا شکار ہے۔ مناسب نوکریاں نہ ملنے کے سبب ان کی پر آسائش زندگی میں حائل رکائوٹوں کی وجہ سے معاشرتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔دوسری جانب امریکا کا غیر ممالک میں جنگوں میں مداخلت اور امریکی فوجیوں کی بڑی تعداد میں ہلاکت اور طویل جنگوں نے بھی امریکی معیشت کے ساتھ امریکی عوام کو کمزور و ڈیپریشن کا شکار بنایا ہوا ہے۔طویل جنگی میدانوں سے واپس آنے والے فوجیوں کی خودکشی کی واقعات امریکی معاشرے کے المیہ کی نشان دہی کرتے ہیں۔ امریکی معاشرہ جہاں معاشرتی انحطاط کا شکار ہورہا ہے ۔ تو اس کے اثرات براہ راست کم عمر بچوں اور نوجوانوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ نسلی تفریق ، مذہبی منافرت اور معاشرتی عدم استحکام کی بنا پر امریکی بچے معاشرتی تنہائی کا دبائو برداشت کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں اور بتدریج ایسے گروپ جوائن کرلیتے ہیں جہاں ان کے کچلے جذبات کا فائدہ اٹھا کر انہیں تشدد کے لئے آمادہ کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اسکولوں میں فائرنگ کے واقعات میں یہی دیکھا گیا ہے کہ فائرنگ کرنے والا طالب علم کا تعلق کسی اسلامسٹ تنظیم سے جڑا نہیں ملتا تو ریاست ان واقعات کو نفسیاتی عوامل کا کاشاخانہ قرار دے دیتی ہے۔ تاہم امریکا میں ہونے والے ایسے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں جس میں حملہ آور دہشت گرد کا کوئی نہ کوئی تعلق شدت پسند تنظیم داعش سے بھی جا ملتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات یہی دیکھا گیا ہے کہ ان واقعات میں اگر کوئی مسلمان شدت پسند نکل آتا ہے تو اسلام فوبیا کے شکار ، اسلام کے خلافہر قسم کا پروپیگنڈا کرنے سے باز نہیں آتے ۔ یہاں تک کہ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا ہے ۔ امریکا میں مسلمانوں کے حقوق کی ایک تنظیم کے مطابق امریکا میں مسلمانوں کے خلاف تشدد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ، مسلمانوں کی مساجد کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ تاہم یہ رویہ تو امریکی کی پالیسی کا عکاس بن چکا ہے ۔ اس وقت امریکا کے لئے سب سے اہم مسئلہ طالب علموں کی جان سے اسکولوں میں فائرنگ اور درجنوں نہتے طالب علموں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا بن چکا ہے۔
امریکا کے سیکورٹی ادارے اسکولوں میں متشدد واقعات کو بروقت روکنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اسی طرح خود کار ہتھیاروں کا اسکول میں با آسانی لے جانا سیکورٹی سسٹم کی سقم کی جانب بڑا اشارہ ہے ۔کسی 15برس سے19برس تک کے طالب علم کا کئی ہتھیاروں کا بیک وقت اسکول کے اندر لے جانا اور پھر سیکورٹی اداروں کے ساتھ مقابلہ کئے جانا اس جانب رجحان کرتا ہے کہ اسکولوں پر حملے میں حملہ آور باقاعدہ تربیت یافتہ ہوتا ہے ۔ جو خود کار مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے بلکہ باقاعدہ منصوبہ کرکے حملہ کرتا ہے۔ گزشتہ دنوں ٹیکساس کے اسکول میں دہشت گردی کے واقعے میں جس طرح منظم انداز میں ٹارگٹڈ دہشت گردی کی کاروائی کی گئی اور کئی اطراف میں مہلک بارودی مواد بھی دبایا گیا اس سے آگاہی ملتی ہے کہ امریکی طالب علم نے باقاعدہ دہشت گردی کی تربیت حاصل کی ہوئی تھی۔امریکا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کی جڑیں کسی ایک ملک میں نہیں بلکہ دہشت گرد کسی بھی شکل و کسی بھی ایجنڈے کے تحت کہیں بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ دہشت گرد کا مسلک اسلام ہو ۔ بلکہ اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ دہشت گردی ، شدت پسندی اور انتہا پسندی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ اس کا خود اپنا ایک منفی نظریہ ہوتا ہے جس کا وہ اتباع کرتا ہے۔امریکا کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کا شکار کوئی خاص قوم و مذہب نہیں ہے بلکہ دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار خود پاکستانی مسلمان ہیں۔ٹیکساس کے اسکول میں جس طرح دہشت گرد طالب علم نے کئی طالب علموں کو اس لئے نشانہ نہیں بنایا کیونکہ وہ انہیں پسند کرتا تھا تو اس جانب اشارہ بھی ہے کہ سبیکا کو اس کی پاکستانی اور مسلمان ہونے کی وجہ سے دہشت گردی کی نفرت کا نشانہ بنایا گیا ۔ پاکستانی طالبہ سبیکا کی ناگہانی موت امریکا کے پالیسی میکرز کے لئے بھی ایک پیغام ہے کہ پاکستانی جہاں اپنے ملک میں دہشت گردوں سے محفوظ نہیں وہیں دیار غیر میں بھی دہشت گردوں کے نشانے پر ہوتے ہیں ۔ ورنہ سبیکا کا کیا قصور تھا ۔ وہ تو خود امریکا کے ایک تعلیمی پروگرام میں اسکالر شپ حاصل کرکے ٹیکساس آئی اور کچھ دنوں بعد اُسے واپس پاکستان لوٹ جانا تھا ۔ عالمی برادری کو شدت پسندی کی سوچ کے خلاف اپنی پالیسیاں تربیت دینا ہونگی جس میں بلا امتیاز رنگ و نسل و مذہب سب کو تحفظ حاصل ہو۔امریکی نظام مسلسل معاشرتی انحطاط پذیری ، نسلی عصبیت اور مذہبی منافرت کا شکار ہورہا ہے اور امریکی تعلیمی درسگائیں دہشت گردی کا تربیت گاہ بن رہی ہیں ۔ امریکی دہشت گردوں کی سفاکانہ کاروائیوں کو محض دماغی خلل کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔