واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی حکام نے جو بائیڈن کی افتتاحی تقریب کی حفاظت پر مامور کیے گئے نیشنل گارڈ کے تمام ارکان کی اچھی طرح سے چھان بین کرنے کے بعد بارہ فوجیوں کو ڈیوٹی سے ہٹا دیا۔
امریکی حکام نے منگل کے روز کہا کہ فوج نے نو منتخب صدر جو بائیڈن کی حلف برداری تقریب کے تحفظ کیے لیے تعینات کیے گئے پچیس ہزار نیشنل گارڈ میں سے ان بارہ ارکان کو ڈیوٹی سے ہٹا دیا ہے جن کے بارے میں دعوی کیا جا رہا ہے کہ ان کے دائیں بازو کی انتہا پسند ملیشیا سے تعلق تھے یا پھر انہوں نے سوشل میڈیا پر ایسے ہی انتہا پسندانہ نظریات کا اظہار کیا تھا۔
چھ جنوری کو ٹرمپ کے حامیوں نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بول دیا تھا اور پر تشدد واقعات میں پانچ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔اس تناظر میں حکام کو واشنگٹن میں جو بائیڈن کی حلف برداری کی تقریب کے موقع پر ممکنہ طور پرتشدد کے واقعات کا خدشہ ہے اور اسی لیے بدھ 20 جنوری کی اس تقریب کے لیے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
واشنگٹن شہر میں اس وقت ایک طرح سے لاک ڈاؤن جیسی صورت حال ہے۔ تحفظ کے مقصد سے مختلف مقامات پر بیریکیڈس لگائے گئے ہیں جبکہ حساس علاقوں میں خار دار تاریں بھی بچھائی گئی ہیں اور شہر کی حفاظت کے لیے پچیس ہزار فوجی جوان تعینات کیے گئے ہیں جو ہمہ وقت گشت کر رہے ہیں۔
بیشتر فوجی عملہ وائٹ ہاؤس اور کیپیٹل ہل کے آس پاس کے ریڈ زون والے علاقے میں تعینات کیا گیا ہے جہاں نو منتخب صدر جو بائیڈن اور کمالہ ہیرس کی حلف برداری کی تقریب ہونی ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کے حکام کو اندرونی حملوں یا پھر فساد بھڑک اٹھنے کی صورت میں فوج کی جانب سے فکر لاحق ہے۔ اسی تشویش کے مد نظر ایف بی آئی نے سکیورٹی ڈیوٹی پرتعینات کیے گئے تمام نیشنل گارڈز کا بیک گراؤنڈ چیک کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
واشنگٹن میں نیشنل گارڈ کے سربراہ جنرل ولیم واکر نے امریکی نیوز چینل فاکس نیوز سے بات چیت میں کہا، ”ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ سکیورٹی کے حصار کے لیے درست لوگ موجود ہوں۔”
پینٹاگون کے ترجمان جوناتھن ہو ف مین کا کہنا تھا کہ ”زبردست احتیاط برتنے” کی حکمت عملی کے تحت مشتبہ گارڈز کو گھر بھیج دیا گیا ہے، تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تمام بارہ ارکان کا تعلق انتہا پسند گروپ سے بھی نہیں تھا۔
فوج کے سربراہ ڈینیئل ہوکینسین نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ پریشان کن ٹیکسٹ پیغامات دریافت ہونے کے بعد ایک فوجی کو ہٹا دیا گیا تھا جبکہ ایک دوسرے محافظ کو متعلقہ ایجنسی کو رپورٹ کرنے کو کہا گیا۔ اس کے علاوہ دس دیگر ارکان کو سابقہ مجرمانہ سرگرمیوں کی وجہ سے ہٹایا گیا لیکن ان کا افتتاحی تقریب سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔
اس دوران منگل 19 جنوری کو جارجیا میں ایک حاضر سروس فوجی کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ حکام کا خیال ہے کہ مذکورہ فوجی امریکی فوجیوں پر گھات لگا کر حملے کے لیے شدت پسند تنظیم داعش کی مدد کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
اس حوالے سے امریکی محکمہ انصاف نے ایک بیان میں کہا کہ پرائیویٹ کول جیمز بریجز پر، ”ایک نامزد غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کو مادی مدد فراہم کرنے کی کوشش کرنے اور امریکی فوجیوں کو قتل کرنے کی سعی کرنے جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔” اس فوجی کو جمعرات کے روز وفاقی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔