واشنگٹن (جیوڈیسک) ‘ڈیپ اسٹیٹ’ پولیٹکل سائنس کی ایک ناپسندیدہ اصطلاح ہے جس سے مراد ایسی سازش ہے جو ریاست کے بعض افراد یا ادارے جمہوری طور پر منتخب کسی حکومت کے اختیارات میں کمی اور پالیسی پر اثر انداز ہونے کے لیے کریں۔
حالیہ برسوں میں مصر، پاکستان اور ترکی میں منتخب حکومتوں کو درپیش چیلنجز کے لیے عموماً ‘ڈیپ اسٹیٹ’ کی اصطلاح استعمال ہوتی رہی ہے۔ پاکستان میں اس صورت حال کے لیے “ریاست کے اندر ریاست” کی اصطلاح خاصی مقبول ہے۔
لیکن آج کل امریکہ میں بعض لوگ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی حکومت کو درپیش چیلنجز اور صورتِ حال کی سنگینی کے اظہار کے لیے ‘ڈیپ اسٹیٹ’ کا حوالہ دے رہے ہیں۔
لیکن یہ کوئی نیا خدشہ نہیں۔ کیوں کہ ماضی میں امریکہ میں انتہائی دائیں اور بائیں بازو کے حلقوں کی جانب سے ‘ڈیپ اسٹیٹ’ کے سازشی نظریے کی بازگشت سنائی دیتی رہی ہے۔
اس بار ان خدشات کو تقویت خود صدرِ امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے بیانات سے ملی ہے جنہوں نے گزشتہ ہفتے ٹوئٹر پر تواتر سے اپنے پیش رو براک اوباما پر یہ الزامات لگائے کہ انہوں نے 2016ء کی انتخابی مہم کے دوران نیویارک کے ٹرمپ ٹاور کی جاسوسی کے احکامات جاری کیے تھے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے اس الزام کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔ صدر اوباما کی حکومت میں کام کرنے والے کئی اعلیٰ اہلکاروں اور انٹیلی جنس اداروں کے سابق عہدیداران نے بھی اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔
امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق اہلکار فریڈ فلیٹز کہتے ہیں کہ ری پبلکنز کو ‘ڈیپ اسٹیٹ’ کی اصطلاح استعمال کرتےہوئے احتیاط برتنی چاہیے۔
فریڈ فلیٹز کے بقول انہیں نہیں لگتا کہ امریکہ میں کسی ‘ڈیپ اسٹیٹ’ کا کوئی وجود ہے اور نہ ہی بیوروکریسی کے بعض عناصر صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف کوئی کام کر رہے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کے ایک اعلی اہلکار کا اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گزشتہ سال صدارتی انتخابی مہم کے دوران جب بعض ایسی دستاویزات لِیک ہوئی تھیں جن سے ڈیموکریٹ پارٹی کو نقصان پہنچا تھا تو صدر اوباما اور ڈیموکریٹس کی قیادت اس کی مذمت میں آگے آگے تھے۔ لیکن اب جب اس سے کہیں زیادہ نقصان دہ معلومات افشا کی جارہی ہیں اور وہ بھی غیر قانونی طور پر، تو انہوں نے چپ سادھ رکھی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے اہلکار نے الزام عائد کیا کہ سابق دورِ حکومت میں سیاسی عہدوں پر تعینات افراد اور کیپٹل ہِل میں کام کرنے والے ڈیموکریٹ پارٹی کے ہمدردوں نے کئی وفاقی اداروں میں اہم عہدوں پر اپنے لوگ بٹھا رکھے ہیں جو غلط سلط معلومات جاری کرکے صدر ٹرمپ کو پریشان کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
سینٹ لارنس یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہاورڈ آئزن اسٹیٹ نے بین الاقوامی ‘ڈیپ اسٹیٹ’ تنازعات کا مطالعہ کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف امریکی بیوروکریسی کی مزاحمت قابلِ فہم ہے کیوں کہ نئی انتظامیہ نظامِ حکومت میں رد و بدل کرنا چاہتی ہے اور نئی پالیسیاں متعارف کرانے کی خواہش مند ہے جس سے بیوروکریسی کو لگ رہا ہے کہ اسے نشانہ بنایا جارہا ہے۔
صدر ٹرمپ کے بعض حامیوں کا خیال ہے کہ نئی حکومت کو سازشی نظریات پر توجہ نہیں دینی چاہیے بلکہ بیوروکریسی میں جلد سے جلد اور زیادہ سے زیادہ اپنے لوگ تعینات کرکے اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔