میونخ (جیوڈیسک) جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے تنبیہ کی ہے کہ امریکا اور برطانیہ یورپ کے قابل اعتماد ساتھی نہیں رہے اور یورپ کو اب اپنے فیصلے خود کرتے ہوئے اپنی قسمت کو اپنے ہاتھوں میں لینا ہو گا۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ بریگزٹ کے برطانوی فیصلے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد امریکا اور برطانیہ یورپ کے قابل اعتماد ساتھی نہیں رہے۔
جرمن شہر میونخ میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے چانسلر میرکل کا کہنا تھا کہ مغربی اتحادیوں کے مابین اس نئی تقسیم کے بعد یورپ کو ’اب اپنے فیصلے خود کرتے ہوئے اپنی قسمت کو اپنے ہی ہاتھوں میں لینا ہو گا‘۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یورپ کے لیے اب دوسرے ممالک پر انحصار کا وقت گزر چکا ہے۔
چانسلر میرکل اٹلی میں منعقد ہونے والی جی سیون سمٹ میں شرکت کے بعد حال ہی میں واپس جرمنی لوٹی تھیں۔ اس سمٹ کے دوران یورپی ممالک اور امریکا کے مابین تحفظ ماحول سمیت کئی موضوعات پر اختلافات کھل کر سامنے آ گئے تھے۔
میونخ میں اپنی سیاسی جماعت سی ڈی یو کے کارکنوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے میرکل نے امریکا کے ساتھ ساتھ برطانیہ کو بھی ہدف تنقید بنایا۔ تاہم انہوں نے دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات آئندہ بھی بہتر رکھنے کی ضرورت پر زور بھی دیا۔
میرکل کے مطابق امریکا اور برطانیہ کے علاوہ، اگر ممکن ہو تو، روس کے ساتھ بھی بہتر تعلقات رکھنے کی ضرورت ہے، ’لیکن یورپی باشندوں کے طور پر ہمیں ہر حال میں اپنے مستقبل کے لیے خود ہی لڑنا ہو گا‘۔
جی سیون سمٹ کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تحفظ ماحول کے عالمی معاہدے میں امریکا کی شرکت برقرار رکھنے کے بارے میں کوئی مثبت اشارہ نہیں دیا تھا۔ میرکل نے گزشتہ روز صدر ٹرمپ سے ہونے والے مذاکرات کو ’انتہائی غیر تسلی بخش‘ قرار دیا تھا۔
دوسری جانب ٹرمپ نے امریکا واپس پہنچنے کے بعد آج اٹھائیس مئی بروز اتوار ایک ٹوئٹر پیغام میں اپنے دورہ یورپ کو ’امریکا کے لیے انتہائی کامیاب‘ قرار دیا۔ اس دورے کے پہلے حصے میں ٹرمپ نے نیٹو اتحادیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
ٹرمپ نے عوامی سطح پر نیٹو معاہدے کے پانچویں آرٹیکل کے بارے میں بھی کوئی مثبت بیان نہیں دیا تھا۔ اس آرٹیکل کے مطابق نیٹو کے کسی بھی رکن ملک پر حملے کو پورے اتحاد پر حملہ سمجھا جاتا ہے اور تمام رکن ممالک مل کر جوابی کارروائی کرنے کے پابند ہیں۔
برسلز کے دورے کے دوران صدر ٹرمپ نے جرمنی کی کاروباری پالیسیوں پر بھی شدید تنقید کی تھی اور مبینہ طور پر جرمن پالیسیوں کو ’انتہائی بری‘ قرار دیا تھا۔ انہوں نے یہ شکایت بھی کی تھی کہ جرمن کار ساز ادارے امریکا میں بہت زیادہ کاریں بیچ رہے ہیں۔