امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر کا کہنا ہے کہ اگر امریکا کی کسی ’بڑی طاقت‘ کے ساتھ آئندہ حقیقی جنگ ہوتی ہے تو اس کا اہم سبب ملک پر سائبر حملے ہو سکتے ہیں۔ روس اور چین کی جانب سے بڑھتے ہوئے ’سائبر خطرات‘ کے مدنظر یہ بیان کافی اہم ہے۔
متعدد امریکی اداروں اور سولر ونڈز، کولونیئل پائپ لائن کمپنی، گوشت پروسیسنگ کرنے والی کمپنی جے بی ایس اور سافٹ ویئر کمپنی کاسیا جیسی امریکی کمپنیوں پر حالیہ عرصے کے دوران ہونے والے سائبر حملوں کے بعد سائبر سکیورٹی کا معاملہ بائیدن انتظامیہ کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔ ان میں سے بعض حملوں کی وجہ سے امریکا کے بعض حصوں میں ایندھن اور خوراک کی سپلائی متاثر ہوگئی تھی۔
امریکی ڈائریکٹر آف نیشنل انٹلیجنس کے دفتر (او ڈی این آئی) کے اپنے پہلے دورے کے موقع پر تقریباً نصف گھنٹے کی تقریر کے دوران صدر جو بائیڈن نے کہا،”میرا خیال یہ کہ یہ بات قیاس سے آگے جا چکی ہے کہ ہم نتائج کی طرف جارہے ہیں اور اگر ہمارے لیے نتائج کسی جنگ کی صورت میں سامنے آئے، کسی بڑی طاقت کے ساتھ حقیقی جنگ کی صورت میں، تو اس کا سبب سائبر کی خلاف ورزی ہوگی اور بڑی طاقتیں اس سلسلے میں اپنی صلاحیتوں میں غیر معمولی طور پر اضافہ کرنے میں مصروف ہیں۔”
خیال رہے کہ او ڈی این آئی امریکا کے دیگر سترہ انٹیلیجنس اداروں کے کام کاج کی بھی نگرانی کرتا ہے۔ او ڈی این آئی کے تقریباً 120 ملازمین اور اعلیٰ عہدیداروں سے خطاب کرتے ہوئے بائیڈن نے امریکی خفیہ اداروں کے ارکان کا شکریہ ادا کیا اور ان کی کارکردگی پر اعتماد کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ کام کی انتہائی اہم نوعیت اور اس کی پیچیدگیوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اور وہ ان پر کسی طرح کا سیاسی دباو نہیں ڈالیں گے۔
امریکی صدر نے کہا،”مجھے آپ سب پر پورا بھروسہ ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ انٹلی جنس کی دنیا میں کوئی بھی چیز صد فیصد یقینی نہیں ہوتی۔ بعض اوقات کچھ چیزیں ہوجاتی ہیں، کبھی کبھی، بعض اوقات۔” انہوں نے مزید کہا”آپ جو کام کرتے ہیں میں کبھی اسے سیاسی نہیں بناؤں گا۔ یہ میرا آپ سے وعدہ ہے۔ یہ ملک کے لیے بہت اہم ہے۔“
امریکی صدر نے امریکا کی قومی سلامتی کو روس اور چین کی جانب سے بڑھتے ہوئے خطرات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ حالیہ دنوں میں حکومتی ایجنسیوں اورپرائیوٹ کمپنیوں پر سائبر حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ان میں زر تاوان کے مطالبے کے لیے کیے جانے والے حملے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حکام نے ان حملوں میں مذکورہ دونوں ملکوں سے تعلق رکھنے والے ایجنٹوں کو ملوث پایا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر نے 16جون کو جنیوا میں روسی صدر ولادیمر پوٹن کے ساتھ ہونے والی سربراہ ملاقات کے دوران امریکا کے حساس اور اہم بنیادی اداروں اور ڈھانچوں کی ایک فہرست پیش کی تھی اور کہا تھا کہ ان پر کسی بھی طرح کے سائبر حملے ہرگز برداشت نہیں کیے جائیں گے۔
وائٹ ہاوس کا کہنا ہے کہ اس کے بعد سے ہی بائیڈن انتظامیہ کی قومی سلامتی سے متعلق ٹیم کے سینیئر عہدیدار امریکا پر سائبر حملوں کے معاملے میں کریملن کے سینیئر ممبران کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔
صدر بائیڈن نے چین کی طرف سے لاحق خطرات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے صدر شی جن پنگ کا حوالہ دیا کہ وہ”دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور فوجی طاقت اور 2040 کی دہائی کے وسط تک دنیا میں سب سے زیادہ نمایاں معیشت بننے کی شدید ترین خواہش رکھتے ہیں۔”
بائیڈن کے بیان سے ان کے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کے موقف سے واضح علیحدگی کا اشارہ ملتا ہے۔ ٹرمپ کی مختلف معاملات میں خفیہ اداروں کے ساتھ محاذ آرائی تھی جن میں خفیہ اداروں کا یہ تجزیہ بھی شامل ہے کہ 2016 کے صدارتی الیکشن میں روس نے ٹرمپ کو کامیابی سے ہمکنار کرانے کے لیے مداخلت کی تھی۔
خفیہ اداروں نے اس انکشاف میں بھی کردار ادا کیا تھا کہ ٹرمپ نے یوکرائن پر دباؤ ڈالا کہ وہ جو بائیڈن کے خلاف تحقیقات کرے۔