تحریر: طارق حسین بٹ شان امریکی صدارتی انتخابات سر پر ہیں لیکن ابھی تک مطلع بالکل غیر واضح ہے اورکسی بھی امیدوار کی جیت کے بارے میں قطعی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ انتخابی سرووں کے مختلف ادارے اپنی اپنی دنیا سجائے بیٹھے ہیں اور دونوں امیدواروں کی مقبولیت کامختلف پہلووں سے جائزہ لے رہے ہیں۔شائدوہ خود بھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچنا چاہتے اورایسا کرنا ان کے پیشے کا تقاضہ ہے۔عوام کو کنفیوژ ں کا شکار رکھنادر اصل ان کے پیشے کا بنیادی اصول ہے اور وہ اس اصول کابڑی ایما نداری سے پالن کر رہے ہیں۔وہ ہر جائزے میں نئے زاویوں کو تلاش کر کے پیش کرتے ہیں جس سے ووٹرز اپنی اپنی مرضی کے نتائج اخذ کرسکتے ہیں ۔ الیکشن کی یہی خوبصورتی ہوتی ہے کہ آخری لمحوں تک اس میںغیر یقینی کی فضا کوبرقرار رکھا جائے تا کہ زیادہ سے زیادہ ووٹرز الیکشن والے دن پولنگ بوتھوں کا رخ کریں اور اپنے قیمتی ووٹ کا استعمال کریں۔
پاکستان میں تو کئی اہم ادارے حکومتی سر پرستی میں اپنے سروے مرتب کرتے ہیں اور جسے جتوانا مقصود ہوتا ہے اس کے بارے میں پہلے ہی زمین ہموار کر دی جاتی ہے تا کہ جب نتائج کاباقاعدہ اعلان ہو تو عوام کو ذہنی طور پرکوئی بڑا جھٹکا نہ لگے۔ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ اتنی زیادہ مضبوط ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا۔کئی جیتے ہوئے امیدوار اپنی نشستیں ہار جاتے ہیں اور ہارے ہوئے امیدوار پارلیمنٹ کی زینت بن جاتے ہیں۔کئی دفعہ ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ رات کو جیتا ہوا امیدوار صبح ہار جاتا ہے۔وہ لاکھ شور مچائے لیکن اس کا شور کون سنتا ہے؟اس کے لئے عدالتوں کے دروازے کھلے ہوتے ہیں جہاں سے فیصلہ آنے میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔باعث ِ حیرت ہے کہ پارلیمنٹ اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر لیتی ہے لیکن اس دھاندلی والی پٹیشن کا فیصلہ نہیں ہوتااور یوں ہارا ہوا امیدوار ہارا ہوا ہی رہتا ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کا یہی فیصلہ ہوتا ہے۔امریکہ میں اگر چہ ایسا نہیں ہوتا لیکن وہاں پر من پسند سرووں کی بارش میں نہانے کے کئی راستے کھلے رہتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ اس وقت تک بعض انتخابی سرووں میں ایک خاص حد تک ہیلری کلنٹن کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے لیکن اس کے معنی کہیں پر بھی یہ نہیں ہیں ک ہیلری کلنٹن الیکشن جیت جائیں گی۔جس طرح کرکٹ کے کھیل میں آخری گیند تک میچ کا فیصلہ نہیں ہوتا اسی طرح کسی بھی انتخاب میں آخری دن تک کسی امیدوار کی جیت اور ہار کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔کوئی ایک چنگاری پورے خرمن کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا سکتی ہے اور بدقسمتی خوش کوقسمتی میں بدل سکنے کی سکت رکھتی ہے۔
Hillary Clinton
اس وقت امریکہ میں دھشت گردی کا کوئی بھی بڑا واقعہ ڈولنڈ ٹرمپ کے لئے غیبی امداد کی صورت میں نازل ہو کر پورے منظر نامہ کو بدل سکتا ہے لہذا یہ کہنا کہ مجوزہ انتخابات میں ہیلری کلنٹن کی جیت یقینی ہے حقائق سے نظریں چرانے کے متر ادف ہے۔ہاں اگر حالات جوں کے توں رہے اور کوئی غیر معمولی واقعہ رونما نہ ہوا تو یہ کہا جا سکتاہے کہ ہیلری کلنٹن کی جیت کے امکانات زیادہ ہیں۔ ان امریکی انتخابات میں ایک طرف ڈولنڈ ٹرمپ ہیں جبکہ ان کے مدِ مقابل ہیلری کلنٹن ہیں اور ٨ نومبر ان دونوں کی قسمت کا دن ہے۔ اس دن ایک امیدوار ہار جائے گا جبکہ ایک امیدوار جیت جائے گا۔امریکی صدر کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ امریکی صدر صرف امریکہ کا صدر نہیں ہوتا بلکہ اسے پوری دنیاکے بارے میں اہم فیصلے کرنے ہوتے ہیں لہذا صدارتی امیدوار کا فیصلہ بڑی سوچ و بچار کے بعد کیا جاتا ہے ۔پسِ پردہ فیصلے میں کئی عوامل شامل ہوتے ہیں جو فیصلے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔یہ امریکی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ ایک خاتون امریکہ کی صدارتی امیدوار بنی ہیں۔ہیلر ی کلنٹن نے پارٹی کی نمائندگی حاصل کرنے کیلئے آٹھ سال قبل ایک کوشش موجودہ صدر بارک حسین اوباما کے مدِ مقابل آ کر بھی کی تھی لیکن ایک چھوٹے سے مارجن سے وہ ڈیمو کریٹ پارٹی کی صدارتی امیدوار بننے سے رہ گئی تھیں جس کے بعدانھیں وزارتِ خارجہ کا قلمدان سونپا گیا تھا ۔ پی پی پی ِ کے پچھلے دورِ حکومت میں وہ وزیرِ خارجہ تھیں اور پاکستان کے وزیرخارہ شاہ محمود قریشی سے ان کی قربتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔شائد انہی قربتوں کی وجہ سے شاہ محمود قریشی سے وزارتِ خارجہ کا قلمدان واپس لے لیا گیا تھااور وہ پی پی پی سے ناراض ہو کر پی ٹی آئی میں چلے گئے تھے اور عمران خان کے دامن سے اپنا مستقبل وابستہ کر لیاتھا۔،۔
امریکی تاریخ میں شائد پہلی بار ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک عورت امریکہ کی صدر منتخب ہو جائیں۔وہ ملک جہاں ایک صدی پہلے تک عور توں کو ووٹ کاسٹ کرنے کا حق بھی حاصل نہیں تھا اسی ملک میں ایک عورت کے صدر بننے کے امکانات بڑے روشن ہیں۔ ہیلر ی کلنٹن کواپنے حریف ڈولنڈ ٹرمپ پر قدرے برتری حاصل ہے جو اس سوچ کو تقویت بخش رہی ہے کہ عورت کا امریکی تاریخ میں پہلی بار صدر بننا اب زیادہ دور نہیں ہے۔پاکستان میں عورت کی حکمرانی کا پہلا امتحان اس وقت ہوا تھا جب بانیِ پاکستان قائدِ اعظم کی ہمشیرہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح نے فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے مدِ مقابل ا نتخابات لڑنے کا اعلان کیا تھا ۔ اس وقت کی تمام مذہبی جماعتوں نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی حمائت کی تھی کیونکہ اس وقت ایسا کرنا ان کے ذاتی مفاد میں تھا ۔جماعت اسلامی جو عورت کی حکمرانی کی شدید ناقد تھی وہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھی کیونکہ ایوب خان نے جما عت اسلامی پر پابندی عائد کر رکھی تھی اور اس کے سارے اہم رہنمازندانوں میں قید کئے ہوئے تھے۔ایوب خان سے جان چھڑانے کا یہی ایک طریقہ باقی بچا تھا کہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی بھر پور حمائت کی جائے تا کہ ایوب خان کے ظلم و جبر سے رہائی مل جائے لیکن ایوب خان نے دھاندلی سے سارے نتائج بدل دئے تھے اور یوں آمریت کے سائے مزید گہرے ہو گئے تھے۔
Zulfikar Ali Bhutto
یہ تو ذولفقار علی بھٹو کی قیادت کا کرشمہ تھا جس نے جبر کی اس سیاہ رات سے عوام کی جان چھڑائی تھی اور جمہوریت انھیں تحفے میں دی تھی۔ پاکستان میں جب ١٩٨٨ کے انتخابات ہو رہے تھے تو اس وقت ایک دفعہ پھر یہ بحث چھڑ گئی تھی کہ کیا عورت پاکستان کی وزیرِ اعظم بن سکتی ہے؟ علماء کرام کی اکثریت محترمہ بے نظیر بھٹو کے وزیرِ اعظم بننے کی مخالف تھی اور جماعت اسلامی اس میں پیش پیش تھی ۔ان کا متفقہ فتوی تھا کہ جو محترمہ بے نظیر بھٹو کو ووٹ دے گا وہ اسلام سے خارج سمجھا جائے گا لیکن اس کے باوجود عوام نے ملا ازم کو شکست سے دوچار کر کے فیصلہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے حق میں دیا تھا۔یہ ملا ازم کو بہت بڑا دھچکا تھا لیکن اس کے باوجود بھی ملائی سوچ میں کوئی فرق نہیں آیا کیونکہ نہ بدلنا ملا ازم کا شیوہ ہے۔وہ اب بھی ایسا ہی سوچتے ہیں کہ عورت سربراہِ مملکت نہیں بن سکتی یہ الگ بات کہ فی الحال محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح کوئی خاتون وزیرِ اعظم کی امیدوار نہیں ہے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ جب مستقبل میں میاں محمد نواز شریف کی ذہین سپتری محترمہ مریم نواز وزارتِ عظمی کی امیدوار ہوں گی تو اس وقت علماء کرام کا ردِ عمل کیا ہوگا؟بائیں بازو اور دائیں بازو کی سیاست کا پاکستان میں ایک خاص مقام ہے۔پی پی پی بائیں بازو کی جماعت ہے جبکہ مسلم لیگ(ن) دائیں بازو کی جماعت ہے۔
بایاں بازو ترقی پسندی اور سیکو لرازم کی علامت ہے جبکہ دایاں بازو مذہبی سوچ کی علمبرداری کی علامت ہے لہذا میاں محمد نواز شریف کی سپتری مریم نواز کو وزرتِ عظمی کی امیدواری میں اس طرح کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جیسا محترمہ بے نظیر بھٹو کو کرنا پڑاتھا۔میڈیا نے بھی اس طرح کی متعصبانہ سوچ کو قدرے کمزور کر دیا ہے لہذا اغلب گمان یہی ہے کہ اب عورت کی امیدواری کی اس طرح مخالفت نہیں ہو گی جیسی ماضی میں دیکھی گئی تھی۔اس طرح کے اندازِ فکر کو شائد مذہبی گروہ بھی اس طرح پیش نہ کر سکیں کیونکہ اب پی پی پی نہیں بلکہ مسلم لیگ(ن) اس کا نشانہ ہو سکتی ہے اور مسلم لیگ (ن) کے لئے مذہبی جماعتیں ہمیشہ نرم گوشہ رکھتی ہیںلہذا وہ میاں صاحب کی سپتری کو گرین چٹ دے دیں گی۔عورت کا حکمران بننا کو ئی ا چھنبے کی بات نہیں ہے ۔ ماضی میں عورت کی حکمرانی نے بڑے بڑے کارنامے سر انجام دئے ہیں۔سپین کی ملکہ ازبیلا اور برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ اور ملکہ ایلزبتھ اس کی نمایاں مثالیں ہیں جو اس بات کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ عورت کی حکمرانی بھی تاریخ ساز کامیابیوں کا سہرا اپنے سر سجا سکتی ہے۔،۔