تحریر : عابد علی یوسف زئی امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے 2001ء میں امریکی ٹریڈ سنٹر پر حملے کو جواز بنا کر”دہشت گردی کے خلاف جنگ” کا اعلان کیا۔ اس جنگ کا پہلا نشانہ افغانستان بنا۔ اس کے بعد عراق۔ شروع ہی میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اس جنگ کو صلیبی جنگ (Crusade war) بھی کہا جس سے اس کی اصل نیت واضح ہوتی ہے اگرچہ بعد میں اس لفظ کو استعمال نہیں کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ دو تہذیبوں کی جنگ نہیں ہے۔
11 ستمبر 2001ء کو دو مسافر بردار طیارے نیویارک میں واقع عالمی تجارتی مرکز (ورلڈ ٹریڈ سینٹر ٹاورز) کی بلند و بالا عمارتوں سے ٹکرا گئے، جس سے یہ مینار زمین بوس ہو گئے۔ امریکی انتظامیہ کے مطابق طیاروں کو فضا میں اغوا کر کے جان بوجھ کر عمارتوں سے ٹکرایا گیا اور اس کی ذمہ داری القاعدہ نامی تنظیم کے سر ڈالی گئی۔ اس واقع کو امریکی ذرائع ابلاغ نے نائن الیون کا نام دیا۔ تاہم ابھی تک غیرجانبدار ذرائع سے اس دن کے حالات و واقعات کی مکمل و درست تفصیل معلوم نہیں ہو سکی۔ بہت سے سوالوں کا تسلی بخش جواب نہیں مل سکا۔ امریکی اس معاملے میں حقیقت سے بالا ہو چکے ہیں۔ چنانچہ امریکی صدر کے ایلچی کارل روو کا بیان ہے کہ
”ہم اب ایک بادشاہت ہیں۔ ہم اپنی حقیقت خود بناتے ہیں۔”
9/11 کو جواز بنا کر افغانستان اور عراق پر امریکہ اور اس کے حواریوں نے جنگ مسلط کی۔ افغانستان سب سے پہلے نشانہ بنا۔ افغانستان کے خلاف اس جنگ میں تقریباً تمام مغربی ممالک امریکہ کے حواری بن کر شامل ہو گئے۔ ان ممالک میں برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، اور نیٹو تنظیم کے بیشتر ممالک شامل ہیں۔ اس کارروائی میں نیٹو فوجوں نے ہوائی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے فرضی دہشت گردوں کو نشانہ بناتے ہوئے انگنت بم افغانستان کے علاقہ پر گرائے۔ افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوج انوکھے انداز سے جنگ لڑ رہی ہے۔ اگر امریکی فوجی فائرنگ کی زد میں آ جائیں تو فوراً بمبار لڑاکا ہوائی جہازوں کی مدد مانگ لیتے ہیں۔ لڑاکا جہاز سارے علاقے پر اندھا دھند بمباری کر کے سینکڑوں رہائشیوں کو شہید کر دیتے ہیں۔ امریکی صدر بارک اوبامہ نے 2009 میں جنوبی افغانستان کے پشتونوں کے خلاف جنگ تیز کرنے کے لیے میرین برگیڈ روانہ کیا۔ نیٹو فوجوں کی طرف سے قتل و غارت کا سلسہ ابھی تک بھی جاری و ساری ہے۔ بہت سے لوگوں کو دنیا کے مختلف حصوں سے اغوا کر کے امریکہ نے کیوبا کی خلیج گوانتانامو میں واقع ایک امریکی فوجی اڈے کے زندانوں میں قید کر رکھا ہے۔ یہ قید خانہ امریکی نظامِ انصاف کے ماتحت نہیں آتا بلکہ امریکی فوج اور خفیہ ادارے اسے چلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ CIA نے یورپ کے کئی ممالک میں نجی جیل قائم کیے جو ہر طرح کی عدالتی نگرانی سے آزاد تھے۔
اس کے علاوہ بحری جہازوں میں بھی اغواشدگان کو قید کیا گیا۔ یہاں قیدیوں پر اذیت ناک تشدد (torture) کیا جاتا رہا۔ اس کے علاوہ “پانی تختہ” کی اذیت بھی استعمال کی گئی جس کی اجازت امریکی حکومت کے بالائی ایوانوں نے دی۔ریڈکراس نے اس کی تصدیق کی ہے کہ امریکی جنیوا معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قیدیوں پر تشدد میں ملوث رہے ہیں۔ FBI کے کارندوں نے گوتانمو میں امریکی فوجی اور CIA کے ہاتھوں ہونے والے تشدد پر ایک ملف کھولا جس کا عنوان”جنگی جرائم” تھا۔ 2008ء میں بارک اوبامہ نے گوتانامو کا عقوبت خانہ بند کرنے کا وعدہ کیا۔ پھر امریکی تشدد طریقوں کی تفصیل اخبارات کو جاری کی۔ کہا کہ تشدد کے جرائم پر کسی امریکی اہلکار کو سزاوار نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ اگست 2009ء میں ACLU نے امریکی حکومت سے بگرام ہوائی اڈا کے شمال میں مبحوس 600 سے زائد قیدیوں کے بارے استفسار کیا، اس خدشے کے پیش نظر کہ یہ جگہ نیا گوتوانمو عقوبت خانہ بن چکا ہے۔ برطانیہ اپنے شہریوں کو تیسرے ملک بھیج کر تشددی تفتیش میں ملوث رہا۔ برطانوی فوج بھی عراقی شہریوں کے اغوا، تشدد، اور قتل میں ملوث رہی۔ نازی پولیس کی طرح برطانوی فوجی بھی شہریوں کو گرفتار کر کے ان کے سروں پر گھٹن ٹوپ ڈالتے رہے۔
امریکی سرکاری اداروں اور فوج نے بہت سے جنگی کام تجارتی اداروں کو ٹھیکے پر دے دیے۔ اس میں سب سے زیادہ مشہور کمپنی بلیک واٹر ہے جس کے امریکی نائب صدر ڈک چینی سے تعلقات تھے۔ تجارتی کمپنی کو اسی کام کے پانچ گنا پیسے ملتے جو ایک سرکاری ملازم کو ملتے۔ CIA نے بھی تجارتی اداروں کو تشدد اور جیل چلانے کے ٹھیکے دیے۔ مشہور ہوائی جہاز کمپنی بوئنگ بھی اس کام میں ملوث رہی۔
اس جنگ کی آڑ لے کر امریکی حکومت نے اپنے عوام کی آزادیاں بھی سلب کرنا شروع کر دیں۔ امریکی کانگریس نے امریکی عوام پر وسیع پیمانے کی جاسوسی کی منظوری دی۔ اس قانون سے امریکی آئین کی چوتھی ترمیم عضو معطل ہو کر رہ گئی ہے۔ امریکی انتظامیہ نے ایک امریکی شہری ہوزے پاڈیلا پر دہشت گردی کے الزامات لگا کر خصوصی عدالت میں مقدمہ چلانے میں ناکامی کے بعد فلوریڈا کی ایک jury سے چھوٹے موٹے دہشت گردی الزامات میں سزا کا فیصلہ حاصل کر لیا۔فلوریڈا یونیوسٹی پروفیسر سمیع کے خلاف دہشت الزامات میں عدالتی ناکامی کے بعد امریکی انتظامیہ نے اسے ملک بَدر کر دیا۔ امریکہ میں مقیم 5000 مسلمان افراد کو بغیر کسی الزام کے جیل میں بند کر دیا گیا۔ FBI باقاعدہ مسلمانوں کو پھانسنے کے لیے عادی مجرموں کو بھاری رقوم دیتی ہے جو باتوں باتوں میں نوجوان مسلمانوں سے ”قابلِ اعتراض” جملے کہلوا لیتے ہیں جس پر امریکی عدالتوں سے آسانی سے سزا کا فیصلہ حاصل کر لیا جاتا ہے۔ کینیڈا کے خفیہ ادارے شہریوں کو غیرقانونی طور پر دوسرے ممالک کے حوالے کرنے میں ملوث رہیں۔
2006ء میں امریکی کانگریس نے سرکار کی طرف سے قید کو عدالت میں اعتراض کا بنیادی انسانی حق معطل کر دیا۔ دوسرے مغربی ممالک میں بھی آئینی آزادیاں سلب کرنے کے قانون بنائے گئے جن کی توثیق عدالتی فیصلوں سے ہوئی۔
عالمی سیاست میں”terror” اور”terrorist” کے الفاظ امریکہ اور مغربی طاقتوں کا عملی طور پر نشان تجارة بن چکے ہیں۔ جس کو چاہیں ”دہشت گرد” قرار دے دیں۔ اس تدبیر کے تحت پاکستان کے انسداد دہشت گردی کا قانون جس میں اجتماعی آبروریزی کو دہشت گردی میں شامل کیا گیا تھا، کو امریکی فیصلے کے مطابق ختم کر دیا گیا کیونکہ دہشت گردی کی تعریف امریکی مرضی سے ہی ہو سکتی ہے۔
اکیسویں صدی کے آغاز سے”دہشت گردی” مغربی حکومتوں کی نفسیات پر سوار ہے۔ مغربی ممالک کا طریقہ واردات یہ بن رہا ہے کہ دہشت گردی کے الزامات میں مسلمانوں کو گرفتار کیا جاتا ہے اور ذرائع ابلاغ میں اس کی بے پناہ تشہیر کرتے ہوئے ان کا تعلق القاعدہ سے جوڑا جاتا ہے۔ مثلاً برطانیہ کے مکین اپنے ملک میں سیاست دانوں کے جھوٹے دعوٰں کو تو شاید بھانپ جائیں مگر دوری کے سبب آسٹریلیا میں دہشت گرد کی گرفتاری کو درست سمجھ جانے کا امکان زیادہ ہو گا۔آسٹریلیا میں جھوٹے دہشت گردی الزامات میں ایک بھارتی مسلمان ڈاکٹر کو گرفتار کیا گیا، اسی وقت جب برطانیہ میں کچھ مسلمان ڈاکٹر ”دہشت گردی” کے الزامات میں گرفتار کیے گئے۔ آسٹریلوی حکومت کو البتہ منہ کی کھانی پڑی جب ڈاکٹر کے خلاف الزامات وکیلوں نے بآسانی جھوٹے ثابت کر دیے۔عراق پر حملہ کو جائز ثابت کرنے کے لیے جھوٹے پروپیگنڈے میں آسٹریلوی وزیراعظم جان ہاورڈ آگے آگے رہا اور اپنی فوج کو بھی شرمناک حملے میں حصہ لینے بھیجا۔ آسٹریلیا نے افغانستان پر امریکی حملے میں بھی اپنی افواج سے حصہ لیا۔
آج بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جارحانہ رویہ رکھے ہوئے ہیں۔ دنیا پر اپنا رعب بٹھانے کے لیے وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے۔ نئے سال کے آغاز پر جب شمالی کوریا کے سربراہ نے اسے ایٹمی حملہ کی دھمکی دی تو انہوں نے رخ تبدیل کرکے پاکستان کے طرف کیا اور انتہائی احمقانہ بات کہہ ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے پندرہ سال ان کے ساتھ دھوکہ کیا اور اربوں ڈالر لے اڑے۔ ساتھ اس نے امریکیوں کے بے وقوفی کا بھی اعتراف کیا۔ یقینا امریکی بے وقوف ہیں اور رہیں گے۔ انہیں شائد معلوم نہیں کہ مسلمان ایمان کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک ڈالروں کی کوئی قدروقیمت نہیں۔ اگر وطن عزیز کو کسی نے میلی آنکھ سے بھی دیکھنے کی کوشش کی تو اس کی انکھیں نکالی جائیں گی۔