چین (جیوڈیسک) چین نے امریکی سفیر کو چین اور انڈیا کے متنازع سرحدی علاقے میں بھیجے جانے پر امریکہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور خبردار کیا ہے کہ انڈیا اورچین کے اختلافی معاملات میں تیسرے فریق کی مداخلت سے مسائل مزید گھمبیر ہوں گے۔
امریکہ نے نئی دہلی میں تعینات اپنے سفیر کو انڈیا اور چین کی سرحدی علاقے میں بھجوایا تھا۔
چین اور انڈیا کا کوہ ہمالیہ کے مشرقی متنازع علاقے میں 90ہزار مکعب کلو میٹر کی ملکیت پر جھگڑا ہے۔ اس میں انڈیا کی ریاست اروناچل پردیش کا بیشترً علاقہ شامل ہے جسے چین جنوبی تبت کہتا ہے۔
دوسری جانب انڈیا میں امریکہ کے سفیر رچرڈ ویرما نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر اروناچل پردیشن کے دورے کی تصاویر شائع کی ہیں۔ انھوں نے انڈیا کے حکام کا اُن کی میزبانی پر شکریہ ادا کیا اور اس خطے کو ’سحر انگیز‘ قرار دیا۔
چین کے وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ چین ’باقاعدہ طور پر امریکی سفیر کی کارروائیوں کی مخالفت کرتا ہے‘ اور اُن کے مطابق اس اقدام سے ’انڈیا اور چین کے سرحدی علاقوں میں امن کی کوشیشوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بریفنگ کے دوران کہا کہ ’کسی بھی معقول تیسرے فریق کو چین اور انڈیا کے مابین دو طرفہ سطح پر پرامن اور مستحکم مفاہمت کے لیے کی جانی والی کوشیشوں کا احترام کرنا چاہیے اور اس کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔‘
ترجمان کا کہنا ہے کہ ’ہم امریکہ پر زور دیتے ہیں کہ وہ انڈیا اور چین کی سرحدی تنازعات میں مداخلت سے پرہیز کرے اور علاقائی امن و استحکام کے فائدے کے لیے کام کرے۔‘ انھوں نے کہا کہ چین اور انڈیا اپنے معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کر رہے ہیں۔
امریکی سفیر نے اروناچل پردیش کا دورہ کیا، جو ملک کا ایک اہم حصہ ہے۔: ترجمان وکاس سورواپ دوسری جانب انڈیا کی وزارت خارجہ نے امریکی سفیر کے دورے کو ’معمول‘ کا اقدام قرار دیا ہے۔
انڈیا کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وکاس سوراپ نے چین کے جواب میں کہا کہ ’امریکی سفیر نے اروناچل پردیش کا دورہ کیا، جو ملک کا ایک اہم حصہ ہے۔‘
نئی دہلی میں امریکی سفارت خانے نے اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
یاد رہے کہ چین اور انڈیا کے مابین 3500 کلومیٹر زمین کی ملکیت کے معاملے پر سنہ 1962 میں جنگ بھی ہوئی تھی۔ چین اور انڈیا نے سرحدی تنازعات پر کئی مذاکرات بھی کیے ہیں لیکن ان میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
انڈیا مسئلہ کشمیر پر کسی بین الاقوامی ثالثی کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہے اور اسے دو طرفہ سطح پر ہی حل کرنے کی بات پر سختی سے ڈٹا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی غیر ملکی ذرائع ابلاغ کو رسائی کی اجازت نہیں دیتا۔